کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 95
درست ہے جب تک کہ وہ دوسرے کے قول کو رد نہ کرے۔ اس کا خلاصہ ہم یوں نکال سکتے ہیں کہ تجوید کی دو قسمیں ہیں: (۱) عملی تجوید (۲) علمی تجوید عملی تجوید سے مراد قرآن مجید کی تجوید کے ساتھ ایسے تلاوت کرنا ہے جیسا کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ میری رائے یہ ہے کہ اس معنی میں اس کے وجوب کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا کہ جو شخص بھی مسلمان مرد یا عورت قرآن مجید کی تلاوت کرنا چاہتا ہو تو وہ اس کا اپنی استطاعت کے مطابق اہتمام کرے۔ پس جو لوگ وجوب کے قائل ہیں تو ہمارے نزدیک وہ اس معنی میں اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ علمی تجوید سے مراد نظری تجوید ہے یعنی اس کے علمی قواعد اوراحکام کوجاننا۔ بلاشبہ کوئی بھی عالم دین ایسا نہیں ہے جو اسے فرض عین قرار دے بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ عوام الناس کے لیے اس کا حکم استحباب کا ہے اور یہ واجب ہر گز نہیں ہے۔ اور جہاں تک ان لوگوں کی بات ہے جو قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کا کام کرتے ہیں اور لوگوں کو صحیح قرآن مجید پڑھنے کی تعلیم دیتے ہیں تو ان کے لیے اس کا حصول فرض عین ہے۔ پس ایسے لوگوں کا اسلامی معاشرے میں ہونا ضروری ہے جو تجوید کے علمی مسائل کو جانتے ہوں تا کہ لوگ اپنی غلطیوں کی اصلاح اور صحیح کو جاننے کے لیے ان کی طرف رجوع کر سکیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ﴾ (التوبۃ: ۱۲۲) ’’پس ان کے ہر ایک فرقے میں سے کوئی ایک جماعت ایسی کیوں نہ نکلی جو دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرتے۔‘‘ اور تجوید کا علم بھی دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرنے میں شامل ہے۔ پس اگر لوگوں کی ایک جماعت تجوید کا علم سیکھنے سکھانے میں مشغول ہو جاتی ہے تو عوام الناس سے اس کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔ پس جو لوگ اس کے استحباب کے قائل ہیں تو وہ اس معنی میں اسے