کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 94
تجوید کی تعریف اور اس کا حکم لغت کے اعتبار سے یہ باب تفعیل کا مصدر ہے اور اس سے اسم ’’جُودۃ‘‘ یا ’’جَودۃ‘‘ بنتا ہے۔ باب تفعیل سے ’’جَوَّدَ‘‘ کے معنی ’’اَتْقَنَ‘‘ کے ہیں یعنی وہ پختہ ہوا۔ ’جید‘ عربی زبان میں ’’ردی‘‘ کا متضاد ہے۔اصطلاح میں اس کا معنی ہے ایک ایسا علم کہ جس میں قرآنی الفاظ کے بارے یہ بحث کی جاتی ہے کہ انہیں ان کی وہ لازمی صفات دی جائیں کہ جو ان سے کسی صورت جدا نہیں ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں ان صفات سے جو احکام پیدا ہوتے ہیں، ان کا مطالعہ بھی اس میں شامل ہے۔ تجوید کا حکم: سلف صالحین کے ہاں تجوید کے حکم میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ وہ اس کے مقام سے خوب واقف تھے البتہ متاخرین میں یہ اختلاف موجود ہے۔ بعض کے نزدیک یہ فرض عین ہے جبکہ بعض نے اسے مستحب قرار دیا ہے اور عصر حاضر میں یہ اختلاف بہت ہی شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس بارے ہم ذیل میں بعض آراء نقل کریں گے۔ جو لوگ تجوید کی فرضیت کے قائل نہیں ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ اسے فرض یا واجب قرار دینا ایک ایسی بدعت ہے جو سلف کے ہاں نہیں تھی۔ اور جو لوگ اس کے وجوب کے قائل ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ تجوید کے وجوب اور عدم وجوب پر بحث مباحثہ کرنا بھی زمانہ حاضر کی بدعات میں سے ایک بدعت ہے۔ اگر ہم دونوں طرف کے جذبات پر مبنی عبارات پر غور کریں اور اصل اختلاف کو دیکھیں تو واضح ہو گا کہ ان کے مابین اختلاف غیر حقیقی ہے اور دونوں طرف کے علماء اپنی جگہ صحیح بات کر رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ورق کے بارے میں کہ جو آدھا سفید اور آدھا سیاہ ہے، یہ کہے کہ یہ نصف سفید ہے اور دوسرا یہ کہے کہ یہ نصف سیاہ ہے تو دونوں کی بات