کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 92
پارے پڑھوں)۔‘‘
حضرت مجاہد بن جبیر رحمہ اللہ سے سوال ہواکہ ایک شخص سورۃ بقرۃ اور آل عمران پڑھتا ہے جبکہ دوسرا صرف سورۃ بقرۃ پڑھتاہے تو دونوں میں افضل کون ہے؟ جبکہ ان دونوں کی قراء ت، رکوع،سجدہ اور تشہد بھی ایک جیسا ہو۔ تو انہوں نے جواب دیا:
((قَالَ الَّذِیْ قَرَأَ الْبَقَرَۃَ۔ ثُمَّ قَرَأَ ﴿وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَئَ ہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ﴾۔))[1]
’’وہ شخص جو صرف سورۃ بقرۃ پڑھتا ہے۔ پھر حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: ’’اور قرآن مجید کو ہم نے تھوڑا تھوڑا نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کو یہ ٹھہر ٹھہر کر سنائیں۔‘‘
اسی لیے آجری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میرے نزدیک تھوڑا قرآن پڑھنا جبکہ اس میں غور وفکر بھی ہو، زیادہ قرآن پڑھنے سے بہتر ہے کہ جس میں غور وفکر نہ ہو۔ قرآن مجیدکے ظاہر،حدیث اور ائمہ کے اقوال سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے:
((قَالَ الْعُلَمَائُ: وَ التَّرْتِیْلُ مُسْتَحَبٌّ لِّلتَّدَبُّرِ وَ لِغَیْرِہٖ۔ قَالُوْا: وَلِھٰذَا یُسْتَحَبُّ التَّرْتِیْلُ لِلْعَجَمِیِّ الَّذِیْ لَا یَفْھَمُ مَعْنَاہُ۔ لِأَنَّ ذٰلِکَ أَقْرَبُ إِلَی التَّوْقِیْرِ وَ الْاِحْتِرَامِ، وَ أَشَدُّ تَأْثِیْرًا فِی الْقَلْبِ۔))[2]
’’علماء کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں غور وفکر کے لیے ترتیل سے پڑھنا مستحب ہے۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عجمی، جس کو معنی سمجھ نہ آتا ہو، کے لیے بھی ترتیل سے پڑھنا مستحب ہے کیونکہ یہ قرآن مجید کی شان، احترام اوروقار کے لائق ہے اور اس کی دل پر تاثیر بھی خوب ہے۔‘‘
۴۔ آداب تلاوت میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کی ابتداء تعوذ سے کرے
[1] أخلاق أھل القرآن: ص۱۷۰.
[2] التبیان: ص۱۲۰.