کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 91
بھی طویل معلوم ہوتی تھی۔‘‘ اور جب کوئی شخص قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے گا تو اس کے معانی ومفاہیم پر غور کرے گا اور یہی اس سے مقصود ہے لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس سے لوگوں کی اکثریت غافل ہے۔لوگوں کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کتنے صفحے یا پارے پڑھنے ہیں، یا ایک مہینے میں کتنے قرآن مجید مکمل کرنے ہیں یا کتنے دنوں میں قرآن مجید مکمل کرنا ہے وغیرہ جبکہ افضل یہ ہے کہ لوگوں کا اصل مقصود قرآن مجید میں غور وفکر بن جائے۔ ایک شخص نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ ایک رکعت میں مفصل سورتوں میں سے کوئی سورت پڑھ لیتے ہیں تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ((ھٰذّا کَھَذِّ الشِّعْرِ إِنَّ أَقْوَامًا یَّقْرَؤُوْنَ الْقُرْاٰنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیْھِمْ، وَ لٰکِنْ إِذَا وَقَعَ فِی الْقَلْبِ فَرَسَخَ فِیْہِ نَفَعَ۔))[1] ’’یہ تو قرآن مجید کا ایسے پڑھنا ہے جیسے شاعری پڑھی جاتی ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے کہ وہ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا۔لیکن اگر وہ قرآن مجید ان کے دل میں اتر گیا اور جگہ بنا گیا تو پھر فائدہ مند ہے۔‘‘ ابو جمرۃ رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں جلد تلاوت کرتا ہوں اور تین راتوں میں قرآن مجید مکمل کر لیتا ہوں۔اس پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ((لَأَنْ أَقْرَأَ الْبَقَرَۃَ فِیْ لَیْلَۃٍ فَأَتَدَبَّرُھَا وَ أُرَتِّلُھَا أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَقْرَأَ کَمَا تَقُوْلُ۔))[2] ’’میں ایک رات میں سورہ بقرۃ کی تلاوت کروں اور اس پر غور وفکر بھی کروں، یہ مجھے زیادہ پسندہے کہ میں تمہاری طرح تلاوت کروں (یعنی ایک رات میں دس
[1] صحیح البخاری: ۱-۱۸۹. [2] أخلاق أھل القرآن: ص۱۶۹۔۱۷۰.