کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 89
ہوتی ہے اور نہ ہی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔لوگ ایسی تلاوت کے ذریعے لطف اور مزہ لینے کی طرف خوب مائل ہوتے ہیں، کبھی سر ادھر مارتے ہیں اور کبھی ادھر، اور اگر قاری اپنے سانس کو لمبا کرے یا نت نئے لہجات میں قرآن مجید پڑھے تو خوشی سے ایسے چیختے چلاتے ہیں جیسے وہ کوئی موسیقی سن رہے ہو یا کسی تفریحی پارک میں ہوں۔اور ایسے معاملات میں اللہ ہی کی پناہ مانگی جاتی ہے۔
غم اور رنج کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت انسان میں خشیت اور رونے کی کیفیات پیدا کرتی ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ﴾ (الحدید: ۱۶)
’’کیا اہل ایمان کے لیے ابھی تک یہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور نازل شدہ وحی سے جھک جائیں۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰهِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ،﴾ (الحشر: ۲۱)
’’اگر ہم یہ قرآن مجید کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ لازما اس کو دیکھتے کہ وہ اللہ کی خشیت کی وجہ سے دبا ہوا اور پھٹنے والا ہونے والا ہے اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں شاید کہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿اللّٰهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباً مُّتَشَابِہاً مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَی ذِکْرِ اللَّہِ،﴾ (الزمر: ۲۳)