کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 87
الْجَنَائِزِ وَ فِیْ بَعْضِ الْمَحَافِلِ وَ ھٰذِہٖ بِدْعَۃٌ مُّحَرَّمَۃٌ ظَاھِرَۃٌ، یَأْثَمُ کُلُّ مُسْتَمِعٍ لَّھَا کَمَا قَالَہٗ أَقْضَی الْقُضَاۃِ، یَعْنِیْ الْمَاوَرْدِیْ، وَ یَأْثَمُ کُلُّ قَادِرٍ عَلٰی إِزَالَتِھَا أَوْ عَلَی النَّھْیِ عَنْھَا إِذَا لَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ وَ قَدْ بَذَلْتُ فِیْھَا بَعْضَ قُدْرَتِیْ وَ أَرْجُوْ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ الْکَرِیْمِ أَنْ یُّوَفِّقَ لِإِزَالَتِھَا مَنْ ھُوَ أَھْلٌ لِذٰلِکَ، وَ أَنْ یَّجْعَلَہٗ فِیْ عَافِیَۃٍ۔))[1]
’’علماء نے کہا ہے کہ قراء ت کرتے وقت اپنی آواز کو خوبصورت بنانا مستحب ہے جب تک کہ قاری افراط وتفریط سے کام نہ لے۔ اگر اس نے افراط وتفریط کرتے ہوئے کوئی حرف زیادہ یا کم کر دیا تو یہ حرام ہے۔ اس کے بعد امام نووی رحمہ اللہ نے قاضی القضاۃ سے ان کی کتاب ’الحاوی‘ سے یہ اقتباس نقل کیا ہے: ’نت نئے لہجات کے ساتھ ایسی قراء ت کرنا کہ جس سے کسی صیغہ میں کسی حرکت کی کمی بیشی ہو جائے یا قصر کو مد یا مد کو قصر بنا دیا جائے یا لفظ کو اس قدر کھینچا جائے کہ صرف لفظ ہی لفظ باقی رہ جائے اور معنی کی کچھ سمجھ نہ آئے تو یہ سب صورتیں حرام ہیں۔ ایسا کرنے والاقاری قرآن بھی گناہ گار ہے اور سننے والا بھی کیونکہ اس طریقے سے قاری تلاوت کے صحیح منہج سے کجی کی طرف چلاجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’یہ ایک ایسا ہے قرآن ہے جو عربی زبان میں ہے اور اس میں ٹیڑھ پن نہیں ہے۔‘ اسی طرح قاضی القضاۃ نے یہ بھی لکھا ہے کہ: ’ اگر تو اس کا لہجہ اسے قرآن مجید کے الفاظ اور ترتیل کے ساتھ تلاوت سے باہر نہ نکالے تو یہ مباح ہو گاکیونکہ اس نے قرآن مجید کو خوبصورت پڑھنے کی کوشش کی ہے۔‘ امام نووی رحمہ اللہ نے اس قول پر یہ حاشیہ لگایا ہے کہ:’ اورحرام لہجے کے ساتھ یہ پہلی قسم کی قراء ت ایک ایسا گناہ ہے کہ جس میں بعض جاہل
[1] التبیان: ص۱۵۰۔۱۵۴.