کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 84
لباس کی طہارت بارے یہ ہے کہ قاری کا لباس نجاست سے پاک ہو اور صاف ستھرا ہو۔ تلاوت کے لیے ایسے تیار ہو جیسا کہ بادشاہوں سے ملاقات کے لیے تیار ہوا جاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو صاف ستھرا لباس پہننے اور خوشبو لگانے کو پسند کرتے تھے۔آپ جب قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا ارادہ کرتے تو بہترین لباس پہنتے، چادر اوڑھتے اور قبلہ رخ ہو کر تلاوت فرماتے۔
تلاوت کلام کے وقت منہ کی طہارت کی ترغیب ہمارے دین میں موجود ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے:
((فَطَھِّرُوْا أَفْوَاھَکُمْ لِلْقُرْاٰنِ۔))[1]
’’قرآن مجید کے لیے اپنے مونہوں کو پاک کرو۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے:
((إِنَّ أَفْوَاھَکُمْ طُرُقٌ لِّلْقُرْاٰنِ فَطِیْبُوْھَا بِالسِّوَاکِ۔))[2]
’’تمہارے منہ قرآن مجید کی تلاوت کے لیے رستوں کی مانند ہیں پس انہیں مسواک سے پاک کرو۔‘‘
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو کھڑے ہوتے تو اپنے منہ کو اچھی طرح مسواک سے صاف کرتے تھے۔اسی طرح تھوم اور پیاز کھا کر مسجد میں جانے سے منع کیا گیا ہے تاکہ انسان کے منہ کی بدبو سے دوسرے متاثر نہ ہوں۔
اسی طرح کا معاملہ جسم سے آنے والی بُو کا بھی ہے۔ تلاوت کرنے والے کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اس کے جسم سے سگریٹ یا پسینے وغیرہ کی بدبو آئے۔ اگر کوئی شخص تلاوت کرنا یا مصحف اٹھانا چاہے تو اسے اس کا دھیان کر لینا چاہیے۔ اگر اسے بادشاہ، گورنر یا وزیر سے ملاقات کرنی ہو تو کیا وہ ایسی حالت میں ان سے ملنا پسند کرے گا؟ تلاوت کلام کے
[1] کشف الأستار عن زوائد البزار: ۱-۲۴۲.
[2] سنن ابن ماجۃ: ۱-۱۲۵.