کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 83
کتاب تیار ہو سکتی ہے لیکن ہم طوالت کی نسبت ایسے اختصار پر اکتفا کریں گے کہ جو اصحاب عقل وفضل کو کفایت کرے۔‘‘ پس جب سلف صالحین کا طریقہ کار طوالت کی بجائے اختصار تھاتو ہم بھی اسی رستے کو اختیار کرتے ہوئے تذکیر ونصیحت کی غرض سے تلاوت کے بعض آداب کو بیان کریں گے۔ اور جسے اس سے زیادہ بیان کی طلب ہو تو اس موضوع پر مستقل تصانیف کی طرف رجوع کرے۔پس یہ آداب درج ذیل ہیں: ۱۔طہارت: طہارت سے مراد صرف وضو نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے بلکہ ہماری مراد جسم، جگہ، لباس، منہ، بُو، سمت اور زبان وغیرہ کی طہارت ہے اور دل کی طہارت کا مقام تو سب سے اوپر ہے۔ جہاں تک جسم کی طہارت کا معاملہ ہے تو اہل علم کا اتفاق ہے کہ جنبی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ غسل کیے بغیر مصحف کو چھوئے یا قرآن مجید کی تلاوت کرے۔ بعض علماء نے حدث اصغر سے بھی طہارت کی شرط لگائی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ﴾ (الواقعۃ: ۷۹) ’’اسے نہیں چھوتے مگر وہ جو انتہائی پاک ہوں۔‘‘ علماء کی ایک دوسری جماعت نے اس طہارت کو اگرچہ مشروط قرار نہیں دیا لیکن اس بات پر بہرحال ان کا اتفا ق ہے کہ افضل اور بہتر یہی ہے کہ حدث اصغر وغیرہ سے بھی پاک ہو۔ اور جب قاری قرآن اجر وثواب کی نیت سے پڑھتا ہے تو اسے افضل طریق کار اختیار کرتے ہوئے کامل طہارت کے ساتھ تلاوت کرنی چاہیے۔ جہاں تک جگہ کی طہارت کا مسئلہ ہے تو نجس مقامات پر قرآن مجید کی تلاوت درست نہیں ہے، چاہے وہ نجاست ظاہری ہو جیسا کہ حمام وغیرہ کی نجاست یا معنوی ہو جیسا کہ تفریح، فسق وفجور اور شراب پینے کے مقامات ہیں۔