کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 80
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے:
((لَا حَسَدَ إِلَّا فِی اثْنَتَیْنِ: رَجُلٌ اٰتَاہُ اللّٰہُ الْقُرْاٰنَ فَھُوَ یَقُوْمُ بِہٖ اٰنَائَ اللَّیْلِ وَ اٰنَائَ النَّھَارِ، وَ رَجُلٌ اٰتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَھُوَ یُنْفِقُہٗ اٰنَائَ اللَّیْلِ وَ اٰنَائَ النَّھَارِ۔))[1]
’’دو چیزوں کے علاوہ کسی چیز میں حسد جائز نہیں ہے۔ ایک وہ شخص کہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید دیا ہو اور اس کے ساتھ دن اور رات کے مختلف حصوں میں قیام کرے اور دوسرا وہ شخص کہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے دن اور رات کی مختلف گھڑیوں میں خرچ کرے۔‘‘
اگر تلاوتِ کلام کی فضیلت میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے علاوہ کچھ بھی مروی نہ ہوتا تو صرف یہی روایت دن اور رات کے مختلف اوقات میں قرآن مجید کی تلاوت میں سبقت لے جانے کے لیے مسلمانوں کی ترغیب وتشویق کے لیے کافی ہوتی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول نے کہا:
((مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ، وَ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرٍ أَمْثَالِھَا لَا أَقُوْلُ اَلٓمٓ حَرْفٌ وَّ لٰکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَ لَامٌ حَرْفٌ وَ مِیْمٌ حَرْفٌ۔))[2]
’’جس نے قرآن مجید میں سے ایک حرف پڑھا تو اس کے لیے ایک گنا نیکی ہے، اور ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ’الم‘ ایک حرف ہے۔ ’’الف‘‘ ایک حرف ہے، ’’لام‘‘ دوسراحرف ہے اور ’’میم‘‘ تیسرا حرف ہے۔‘‘
اللہ کی قسم اگر ہمارے دلوں کو زنگ نہ لگ چکا ہوتا تو کوئی بھی ہم میں سے تلاوتِ کلام
[1] صحیح البخاری: ۹-۶۵.
[2] سنن الترمذی: ۵-۱۷۵.