کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 76
باقی رکھنے کا ذریعہ ہے۔
۲۔ علم کے لیے اپنے آپ کو فارغ کرنا:
ایسی تمام مشغولیات سے اجتناب کرے جو اسے علم سے دور رکھنے کا ذریعہ بنتی ہوں سوائے اس مصروفیت کے کہ جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو کیونکہ بہت زیادہ مصروفیات انسان کے ذہن کودوسری طرف متوجہ کر دیتی ہیں اور تحصیل ِعلم سے رکاوٹ کا باعث بن جاتی ہیں۔
۳۔ علم حاصل کرنے کی حرص پیدا کرے:
باقاعدگی سے اپنے استاذ کے پاس حاضر ہو، اور اگر زیادہ علم حاصل کرنے کے مواقع ہوں تو کم پر قناعت نہ کرے۔ استاذ کے آنے سے پہلے اس کا انتظار کرے اور جو یاد کیا ہے اس کی تلاوت کرے۔ اپنی باری کسی دوسرے طالب علم کو نہ دے کیونکہ تقرب الی اللہ والے اعمال میں دوسروں کے لیے ایثار کرنا مکروہ ہے جیسا کہ ذاتی خواہشات کے معاملے میں اپنے مسلمان بھائی کو ترجیح دینا مستحب ہے۔
۴۔ حاصل شدہ علم پر فخر نہ کرے:
یہ ایک ایسی لغزش ہے جو انسان کے اجر وثواب کو ضائع کر دیتی ہے۔ پس جسے اللہ تعالیٰ نے مکمل یا اکثرقرآن مجید کے حفظ کرنے کا شرف بخشا ہے تو وہ اس پر نہ اِترائے۔ کیونکہ بسا اوقات شیطان، انسان کے دل میں یہ وسوسہ ڈا ل دیتا ہے کہ تو نے تو ایسا کام کیا ہے جو کسی اور نے نہیں کیا یا یہ کہ تو تو لوگوں میں افضل اور بہتر ہے۔ اس طرح اس شخص کے لیے شیطان تکبر، فخر اور عبادت میں کوتاہی کا رستہ کھول دیتا ہے۔ وہ شخص صرف اسی پر اکتفا کر لیتا ہے جو اس نے حاصل کیا ہو اور اس بارے اللہ ہی سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس قاری قرآن کی مذمت کی ہے جو روایات کے پڑھنے پڑھانے اور شاذ پر اعتکاف کرنے میں تو خوب مصروف رہتا ہے لیکن متکلم کی عظمت، قرآ ن مجید کی زجر وتوبیخ اور وعد ووعید اس کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ وہ قرآن مجید کی محض تلاوت ہی کو مقصود سمجھ لیتا ہے اور گناہوں کو ہلکا سمجھنے لگتا ہے۔ اگر اس میں کچھ سوجھ بوجھ ہو تو اسے واضح ہو جائے کہ جو