کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 75
اس سے کم ہی کیوں نہ ہو۔طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے استاذ کے لیے اسی طرح تواضع کا اظہار کرے جیسا کہ وہ علم کے لیے تواضع کا اظہار کرتا ہے جیسا کہ ایک شعر میں ہے: ((اَلْعِلْمُ حَرْبٌ لِّلْفَتَی الْمُتَعَالِیْ کَالسَّیْلِ حَرْبٌ لِلْمَکَانِ الْعَالِیْ۔)) ’’علم سرکش طالب سے ایسے ہی جنگ کرتا ہے جیسا کہ سیلاب اونچی جگہ سے لڑتا ہے۔‘‘ طالب علم کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنے استاذ کو احترام کی نگاہ سے دیکھے اور اس کے سامنے سرکشی نہ کرے اور اس کی علمی ہیبت کو محسوس کرے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد ربیع رحمہ اللہ کا کہنا ہے: ((مَاجْتَرَأْتُ أَنْ أَشْرَبَ الْمَائَ وَ الشَّافِعِیُّ یَنْظُرُ إِلَیَّ ھَیْبَۃً لَّہٗ۔)) ’’مجھے کبھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ امام شافعی مجھے دیکھ رہے ہوں اور میں اس دوران پانی پی لوں اور اس کی وجہ ان کی علمی ہیبت تھی۔‘‘ پس جب بھی طالب علم اپنے استاذ کے پاس جائے تو پورے ادب واحترام‘ صفائی ستھرائی اور بہترین حلیے کے ساتھ جائے اور بغیر اجازت استاذ کے پاس نہ جائے۔ اور جب جائے تو حاضرین مجلس کو بالعموم اور استاذ کو بالخصوص سلام کہے۔ اور اپنے استاذ کے سامنے شاگردوں کی طرح بیٹھے نہ کہ شیوخ کی طرح۔ اپنی آواز کو بلند نہ کرے‘ ہنسی مذاق نہ کرے‘ بلاوجہ زیادہ گفتگو نہ کرے‘ اپنے ہاتھوں وغیرہ سے نہ کھیلے‘ اور بلاوجہ ادھر ادھر متوجہ نہ ہو بلکہ اپنے استاذ کی طرف توجہ رکھے اور اس کی گفتگو کو غور سے سنے۔ اور اگر اپنے استاذ کو کسی تکلیف‘ پریشانی یا غم میں دیکھے تو اس کا لحاظ کرے۔ استاذ کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی سختی اور برے اخلاق کی کوئی مثبت توجیہہ کر لے۔ اور اگر اس کا شیخ شروع ہی سے اس کے ساتھ سختی سے پیش آئے تو یہی گمان کرے کہ یہ میری کسی خطا کے سبب سے ہے۔ اور اپنے استاذ کے ساتھ نرمی سے پیش آئے کیونکہ یہ رویہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے مفید ہے اور اس کے شیخ کے دل میں اس کی محبت