کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 74
((مَرَّ بِنَا الزَّیَّاتُ فَاسْتَقٰی مَائً، فَلَمَّا أَرَدْتُّ أَنْ أُنَاوِلَہٗ قَالَ: أَنْتَ ھُوَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ۔ قَالَ: أَلَیْسَ تَحْضُرُنَا فِی الْقِرَائَ ۃِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ۔ قَالَ: رَدِّہٖ وَ أَبٰی أَنْ یَّشْرَبَ۔))[1]
’’ہمارے پاس سے امام حمزہ الزیات رحمہ اللہ کا گزر ہوا اور انہوں نے پانی طلب کیا۔ پس جب میں انہیں پانی دینا چاہا تو مجھ سے کہنے لگے کہ تو وہی ہے جو ہمارے پاس آ کر قرآن مجید پڑھتاہے ؟ تو میں نے جواب دیا: ہاں!۔ تو انہوں نے وہ پانی واپس کر دیا اور نہ پیا۔‘‘
اکثر دل میں یہ بات کھٹکتی ہے کہ ہم بعض سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں اساتذہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی ذاتی یا گھریلو ضروریات اپنے طلباء سے پوری کرواتے ہیں۔ اور وہ امانت جو امتحانات میں درجات وغیرہ کے لیے ان کے سپرد کی گئی ہے، ان کا یہ خدمت لینا اس میں خیانت کا باعث بن جاتا ہے۔ اور اس وقت تو یہ خیانت زیادہ شدید ہو جاتی ہے جبکہ معاملہ اللہ کی کتاب کا ہو کہ جس کے وہ محافظ اور نگران ہیں۔ اوراس کے حروف کو سیدھا کرنے کے ساتھ اس کی حدود کو قائم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ا وراللہ ہی سے مدد طلب کی جاتی ہے۔
قرآن مجید سیکھنے والے کے آداب
مذکورہ بالا بہت سے آداب ایسے ہیں کہ جن میں طالب علم بھی اپنے استاذ کے ساتھ شریک ہے جیسا کہ اخلاص، تواضع، اچھے اخلاق کا التزام وغیرہ تو ہم ان آداب کو دوبارہ بیان نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آداب درج ذیل ہیں:
۱۔ اپنے استاذ کا احترام کرنا:
طالب علم کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے استاذ کا حق پہچانے، اس کا احترام کرے اور اس کے ساتھ ادب سے پیش آئے اگرچہ وہ عمر،شہرت، حسب ونسب یا صلاحیت وغیرہ میں
[1] أخلاق أھل القرآن: ص۱۳۲.