کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 73
اجتناب کرے کہ قرآن مجید اس کی حاجات پوری کرنے کا ذریعے بنے۔‘‘ اس کے بعد آجری رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں علماء کے کچھ اقوال نقل کیے ہیں: ((فَقَدْ سَأَلَ عَبْدُ اللّٰہُ بْنُ إِدْرِیْسَ أَحَدَ تَلَامِیْذِہٖ قَضَائَ حَاجَۃٍ لَّہٗ ثُمَّ رَدَّہٗ وَ قَالَ: لَا تَسْأَلُ فَإِنَّکَ تَکْتُبُ عَنِّی الْحَدِیْثَ وَ أَنَا أَکْرَہُ أَنْ أَسْأَلَ مَنْ یَّسْمَعُ مِنِّی الْحَدِیْثَ حَاجَۃً وَ ھٰذَا خَلَفُ بْنُ تَمِیْمٍ یَقُوْلُ: مَاتَ أَبِیْ وَ عَلَیْہِ دَیْنٌ فَأَتَیْتُ حَمْزَۃَ الزَّیَّاتَ فَسَأَلْتُہٗ أَنْ یُّکَلِّمَ صَاحِبَ الدَّیْنِ أَنْ یَضَعَ عَنْ أَبِیْ شَیْئًا فَقَالَ لِیْ حَمْزَۃُ: وَیْحَکَ إِنَّہٗ یَقْرَأُ عَلَیَّ الْقُرْاٰنَ وَ أَنَا أَکْرَہُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ بَیْتِ مَنْ یَقْرَأُ عَلَیَّ الْقُرْاٰنَ۔))[1] ’’عبد اللہ بن ادریس نے اپنے ایک شاگرد سے کوئی ضرورت پوری کرنے کا کہا اور پھر اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ تم چونکہ مجھ سے حدیث لکھتے ہو لہٰذا مجھے یہ ناپسند ہے کہ میں کسی ایسے شخص سے سوال کروں جس نے مجھ سے حدیث کی سماعت کی ہو۔ اسی طرح خلف بن تمیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب اس حال میں فوت ہوئے کہ ان پر قرض تھا تو میں امام حمزہ الزیات رحمہ اللہ کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ وہ قرض دینے والے صاحب سے یہ بات کریں کہ میرے والد کا کچھ قرض معاف کر دیں۔ تو امام حمزہ رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: وہ شخص تو مجھ سے قرآن مجید پڑھتا ہے اور مجھے تو یہ بھی ناپسند ہے کہ میں ایسے شخص کے گھر سے پانی بھی پی لوں جو مجھ سے قرآن مجید پڑھتا ہو۔‘‘ آجری رحمہ اللہ نے کئی واقعات نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس قسم کے واقعات کافی ہیں اور میرا مقصود صرف یہ ہے کہ اہل قرآن اس طرح اپنی محنت کو ضائع نہ کر دیں۔ اگر وہ دنیا کا شرف چاہیں گے تو آخرت کے فضل سے محروم رہ جائیں گے۔ جریر بن عبد الحمید رحمہ اللہ سے مروی ہے:
[1] أخلاق أھل القرآن: ص۱۲۴.