کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 72
ہیں۔ البتہ مشق بہت سے بچوں کو ایک ساتھ کروائی جا سکتی ہے۔
۹۔ خطا کرنے پر نرمی کرے:
معلم کی یہ ذمہ داری ہے کہ طالب علم کی غلطی یا خطا پر سختی نہ کرے۔ اور اس کی ہنسی مذاق اڑانے سے تو کلی طور اجتناب کرے کیونکہ ایسا کرنا طالب علم کے کلاس سے بھاگنے کا باعث بن جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آئندہ قرآن مجید کے کسی حلقے میں شامل ہی نہ ہو یا مسجد میں ہی نہ آئے۔
۱۰۔ طلباء سے اپنی ضروریات پوری نہ کروائے:
استاذ کو چاہیے کہ وہ طلباء سے اپنے ذاتی کام نہ لے اور ان سے خدمت بھی نہ لے، چاہے وہ اس خدمت کی خود پیشکش بھی کر رہے ہوں، اور چاہے یہ کتنی تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔ آجری رحمہ اللہ نے کہا ہے:
((إِنَّہٗ یَنْبَغِیْ لِمَنْ کَانَ یُقْرِئُ الْقُرْاٰنَ لِلّٰہِ أَنْ یَّصُوْنَ نَفْسَہٗ عَنِ اسْتِقْصَائِ الْحَوَائِجِ مِمَّنْ یَّقْرَأُ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنَ وَ أَنْ لَّا یَسْتَخْدِمَہٗ وَ لَا یُکَلِّفَہٗ حَاجَۃً یَّقُوْمُ بِھَا وَ اخْتَارَ لَہٗ إِذَا عَرَضَتْ لَہٗ حَاجَۃٌ أَنْ یُّکَلِّفَھَا لِمَنْ لَّا یَقْرَأُ عَلَیْہِ وَ أُحِبَّ أَنْ یَّصُوْنَ الْقُرْاٰنَ عَنْ أَنْ یُقْضٰی لَہٗ بِہِ الْحَوَائِجُ۔))[1]
’’جو اللہ کے لیے قرآن مجید کی تعلیم دیتا ہے، اس کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ان طلباء سے اپنی ضروریات پوری کروانے سے اجتناب کرے جو اس سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ طالب علم سے کسی قسم کی خدمت نہ لے اور نہ اسے اپنی کسی ضرورت کے پورا کرنے میں لگائے۔ اور پسندیدہ ترین بات یہی ہے کہ اگر استاذ کو کوئی حاجت ہو تو وہ ان لوگوں سے پوری کرنے کی کوشش کرے جو اس سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل نہیں کرتے ہیں اور اس بات سے
[1] أخلاق أھل القرآن للآجری: ص۱۲۲.