کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 71
آئے۔ انہیں اس چیز کا مکلف نہ بنائے کہ جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔جو ان میں سے بے وفا ہو اس کی بے وفائی اور بے ادبی پر صبر کرے۔ اور اس بارے ان کا عذر قبول کرے کیونکہ انسان تو عیوب کا مجموعہ ہے خاص طور پر چھوٹی عمر میں۔صحیحین میں یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:’’میرے پاس بیٹھنے والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہوتا ہے جو لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے میرے پاس آ بیٹھتا ہے۔ اگر میرے اندر استطاعت ہو کہ مکھی اس کے چہرے پر نہ بیٹھے تو میں لازماً ایسا کروں۔‘‘ ایک اورروایت کے الفاظ ہیں:’’کہ مکھی اس کے چہرے پر بیٹھتی ہے اور مجھے تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
۷۔طالب علم کی قراء ت توجہ سے سنے:
ان آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ استاذ، طالب علم کی قراء ت توجہ سے سنے اور اس دوران بات چیت یا کسی دوسرے کام میں مشغول نہ ہو۔اور جب استاذ اپنے طلباء کو پڑھانے کے لیے بیٹھے تو اپنے دل کو دیگر جمیع مشاغل سے خالی کر لے۔ اور پڑھانے کے دوران اس کے ہاتھ غیر ضروری حرکات میں مشغول نہ ہوں۔ اور بلاوجہ ادھر ادھرتوجہ نہ کرے کیونکہ اگر طلباء اپنے استاذ سے یہ سب کچھ دیکھیں گے تو اس سے اعراض کریں گے۔اس طرح قرآن مجید سیکھنے کے لیے طلباء کا اہتمام کم اورعزیمت کمزورپڑ جائے گی۔
۸۔ ایک سے زائد طلباء سے ایک ہی وقت میں سبق نہ سنے:
ایک ہی وقت میں ایک سے زائد طلباء سے سننے کی صورت میں استاذ کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ طالب علم کے سبق کے ایک بڑے حصے کی تصحیح کر سکے اور اسے اچھی طرح تعلیم دے سکے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے ایک شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے