کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 70
سَمْحًا بِتَعْلِیْمِہٖ فِیْ رِفْقِ مُتَلَطِّفًا بِہٖ، مُحَرِّضًا لَّہٗ عَلَی التَّعَلُّمِ، وَ أَنْ یُّذْکَرَہٗ بِرِفْقٍ بِفَضِیْلَۃِ ذٰلِکَ وَ عَلَیْہِ أَنْ یَّعْتَنِیَ بِمَصْلِحَۃِ طُلَّابِہٖ کَمَا یَعْتَنِیْ بِمَصَالِحِ أَوْلَادِہٖ فَیُشْفَقُ عَلَیْھِمْ، وَ یُحِبُّھُمْ، وَ یَرْحَمُھُمْ فَلَا یُکَلِّفُھُمْ مَا لَا یُطِیْقُوْنَ، وَ أَنْ یَّصْبِرَ عَلٰی جَفَائِ الْجَافِیْ مِنْھُمْ، وَ سُوْئِ أَدَبِہٖ وَ لْیَعْذِرْھُمْ فِیْ ذٰلِکَ فَإِنَّ الْإِنْسَانَ مَعْرَضٌ لِلنَّقَائِصِ لَا سِیَمَا إِذَا کَانَ صَغِیْرُ السِّنِّ۔ فَقَدْ ثَبَتَ فِی الصَّحِیْحَیْنِ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنَّہٗ قَالَ: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبُّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۔ وَرُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللّٰه عنھما أَنَّہٗ قَالَ: أَکْرَمُ النَّاسِ عَلَیَّ جَلِیْسِی الَّذِیْ یَتَخَطَّی النَّاسُ حَتّٰی یَجْلِسَ إِلَیَّ، لَوِ اسْتَطَعْتُ أَنْ لَّا یَقَعَ الذُّبَابُ عَلٰی وَجْھِہٖ لَفَعَلْتُ۔ وَ فِیْ رِوَایَۃٍ: إِنَّ الذُّبَابَ لَیَقَعُ عَلَیْہِ فَیُؤْذِیْنِیْ۔))[1]
’’اللہ اور اس کی کتاب کی خیر خواہی میں قاری قرآن اور طلباکا اکرام بھی شامل ہے۔ طالب علم کی مصالح کی طرف رہنمائی کرنا، اس کے ساتھ نرمی کرنا، طلباء کی ممکن حد تک مدد کرنااور طالب علم کی تالیف قلب بھی اس میں شامل ہے۔ طلباء میں سے بعض وہ بھی ہوتے ہیں جو پڑھنے سے بھاگتے ہیں تو ان کے ساتھ نرمی کرنااور ان کی خیر خواہی چاہنا اور انہیں تعلیم سے بھاگنے نہ دینا بھی کتاب کی خیر خواہی میں شامل ہے۔ اسی طرح مدرس کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کے ہاں اپنا احتساب کرتا رہے اور یہ کہ قرآن مجید کی تعلیم دیتے ہوئے نرمی اور برداشت کا اظہار کرے۔ طالب علم کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دے اور اسے نرم لب ولہجہ میں کتاب اللہ کے فضائل بیان کرے۔ اپنی اولاد کی طرح اپنے طلباء کی بھی مصالح کا دھیان رکھے اور ان کے ساتھ شفقت، محبت اور رحمت سے پیش
[1] التبیان: ص۴۳۔۴۴.