کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 69
’’اگر تجھے یہ خیال ہو کہ تیراشماران لوگوں میں ہو جن سے اللہ تعالیٰ کلام کریں تو جب بھی ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ کے الفاظ سنو تو توجہ لگا دو کیونکہ تمہارا رب تمہیں کسی خیر کا حکم دینا چاہتا ہے یا کسی شر سے منع کرنا چاہتا ہے۔‘‘
۵۔ تعلیم کی ابتداء سے پہلے امتحان لینا:
استاذ کو چاہیے کہ وہ طالب علم کی تعلیم سے پہلے اس کا امتحان لے تا کہ اس کا علمی درجہ یا جس علم کی اسے ضرورت ہے، اسے جان سکے۔ اسی طرح بچے کی تعلیم کی ابتداء سورۃ بقرۃ سے نہیں کرنی چاہیے بلکہ استاذ اسے پہلے وہ سورتیں سکھلائے جو نماز کے لیے ضروری ہیں جیسا کہ سورۃ فاتحہ اور چھوٹی سورتیں۔
۶۔ اپنے طلبا کو نصیحت کرنا:
حدیث میں ہے:
((اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ۔ قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلّٰہِ وَ لِکِتَابِہٖ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ عَامَّتِھِمْ۔))[1]
’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کے لیے؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کے لیے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے:
((وَ مِنَ النَّصِیْحَۃِ لِلّٰہِ تَعَالٰی وَ لِکِتَابِہٖ إِکْرَامُ قَارِئِ ہٖ وَ طَالِبِہٖ، وَإِرْشَادُہٗ إِلٰی مَصْلِحَتِہٖ، وَ الرِّفْقِ بِہٖ، وَ مَسَاعَدَتِہٖ عَلٰی طَلَبِہٖ بِمَا أَمْکَنَ، وَ تَأَلُّفِ قَلْبِ الطَّالِبِ، فَإِنَّ مِنْھُمْ مَنْ یَنْصَرِفُ ذِھْنُہٗ عَنِ التَّعَلُّمِ فَیَنْبَغِی اللُّطْفُ بِہٖ، وَ النُّصْحُ لَہٗ، وَ عَدَمُ النُّفُوْرِ مِنْہُ وَ لْیَحْتَسِبِ الْمُعَلِّمُ ذٰلِکَ عِنْدَ رَبِّہٖ، وَ أَنْ یَّکُوْنَ
[1] صحیح مسلم: ۱-۷۴.