کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 68
باتوں سے بچنا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
((یَنْبَغِیْ لِحَامِلِ الْقُرْاٰنِ أَنْ یُّعْرَفَ بَلَیْلِہٖ إِذَا النَّاسُ نَائِمُوْنَ وَبِنَھَارِہٖ إِذَا النَّاسُ یُفْطِرُوْنَ، وَ بِبُکَائِہٖ إِذَا النَّاسُ یَضْحَکُوْنَ، وَبِصَمْتِہٖ إِذَا النَّاسُ یَخُوْضُوْنَ، وَ بِخُشُوْعِہٖ إِذَا النَّاسُ یَخْتَالُوْنَ، وَ بِحُزْنِہٖ إِذَا النَّاسُ یَفْرَحُوْنَ، وَ یَنْبَغِیْ لِحَامِلِ الْقُرْاٰنِ أَنْ یَّکُوْنَ بَاکِیًا مَحْزُوْنًا، حَکِیْمًا حَلِیْمًا، عَلِیْمًا سَکِیْتًا، وَ یَنْبَغِیْ لِحَامِلِ الْقُرْاٰنِ أَنْ لَّا یَکُوْنَ جَافِیًا وَ لَا غَافِلًا وَ لَا ضَخَّابًا وَ لَا صَیَّاحًا وَ لَا حَدِیْدًا۔))[1]
’’حامل قرآن کے یہ لائق ہے کہ وہ اپنی رات سے پہچانا جائے جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں اوراپنے دن (کے روزے) سے جبکہ لوگ روزے سے نہ ہوں اور اپنے رونے سے جبکہ لوگ ہنس رہے ہوں اور اپنے غور وفکر سے جبکہ لوگ خوش گپیوں میں مصروف ہوں اور اپنی عاجزی سے جبکہ لوگ غرور کر رہے ہوں اور اپنے غم سے جبکہ لوگ خوش ہو رہے ہوں۔ اسی طرح حامل قرآن کو رونے والا، حکمت والا، حلیم الطبع، عالم اور خاموش طبع ہونا چاہیے۔ اسی طرح حامل قرآن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تند خو، غافل، شوروغل اور چیخ وپکار کرنے والااور سخت ہو۔‘‘
اسی طرح ان سے یہ بھی مروی ہے:
((إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُوْنَ أَنْتَ الْمُحْدَثَ وَ إِذَا سَمِعْتَ اللّٰہَ یَقُوْلُ ﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ فَارِعْھَا سَمْعَکَ فَإِنَّہٗ خَیْرٌ یَأْمُرُ بِہٖ، أَوْ شَرٌّ یَنْھٰی عَنْہُ۔))[2]
[1] الحلیۃ لأبی نعیم: ۱-۱۳۰.
[2] الحلیۃ لأبی نعیم: ۱-۱۳۰.