کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 56
عِنْدَ الْجُمْھُوْرِ لِأَنَّہٗ لَا یُقْصَدُ مِنْہُ التِّلَاوَۃُ، وَ نَصَّ أَحْمَدُ أَنَّہٗ یَجُوْزُ مِثْلَ ذٰلِکَ فِی الْمَکَاتَبَۃِ لِمَصْلِحَۃِ التَّبْلِیْغِ، وَ قَالَ بِہٖ کَثِیْرٌ مِّنَ الشَّافِعِیَّۃِ، وَ مِنْھُمْ مَّنْ خَصَّ الْجَوَازَ بِالْقَلِیْلِ کَالْاٰیَۃِ وَالْآٰیَتَیْنِ، قَالَ الثَّوْرِیُّ: لَا بَأْسَ أَنْ یُعَلِّمَ الرَّجُلُ النَّصْرَانِیَّ الْحَرْفَ مِنَ الْقُرْاٰنِ عَسَی اللّٰہُ أَنْ یَّھْدِیَہٗ، وَ أَکْرَہُ أَنْ یُّعَلِّمَہُ الْاٰیَۃَ ھُوَ کَالْجُنُبِ، وَ عَنْ أَحْمَدَ أَکْرَہُ أَنْ یَضَعَ الْقُرْاٰنَ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعِہٖ وَ عَنْہُ إِنْ رَجٰی مِنْہُ الْھِدَایَۃَ جَازَ وَ إِلَّا فَلَا۔))[1]
’’اس میں استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل روم کی طرف خط لکھا جبکہ وہ کافر اور ناپاک تھے۔ پس جب کسی ناپاک کے لیے ایک ایسے خط کو چھونا جائز تھا کہ جس میں دو آیات بھی تھیں تو اس کے لیے اس کا پڑھنا بھی جائز تھا۔ ابن رشید نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ ان کے نزدیک وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خط لکھا ہی اس لیے تھا کہ وہ اسے پڑھیں، پس پڑھنے کا جواز تو نص سے ثابت ہوا نہ کہ استنباط سے۔ جمہور علماء جو اس کے قائل نہیں ہیں، ان کا جواب یہ ہے کہ خط میں ان دو آیات کے علاوہ بھی کچھ پیغامات تھے۔ پس اس خط کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ کسی فقہ یا تفسیر کی کتاب میں قرآن مجید کی بعض آیات لکھی ہوئی ہوں اور اس کتاب کو چھونا یا اس کو پڑھنا جمہور کے نزدیک بھی ممنوع نہیں ہے کیونکہ یہاں مقصود تلاوت نہیں ہوتی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ دعوت وتبلیغ کی مصلحت سے خط وکتابت میں ایسا جائز ہے۔ شافعیہ کی اکثریت کا بھی یہی قول ہے۔ بعض شوافع نے قلیل یعنی ایک یا دو آیات کی اجازت دی ہے۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ کسی شخص کا کسی عیسائی کو قرآن مجید کے چند حروف پڑھانے میں کوئی حرج نہیں، شاید اسے
[1] فتح الباری: ۱-۴۸۶،۴۸۷.