کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 55
جہاں تک کسی کافر کی تلاوت کا حکم ہے جیسا کہ بعض کلاسز میں عیسائی طلباء بھی موجود ہوتے ہیں اور مدرسین عموماًانہیں قرآن مجید کی تعلیم دینے اور ان کے مصحف کو چھونے کے بارے سوال کرتے ہیں تو اس بارے امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب ’’بَابُ تَقْضِی الْحَائِضُ الْمَنَاسِکَ کُلَّھَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَیْتِ‘‘ کے عنوان سے باندھا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے: ((أَخْبَرَنِیْ أَبُوْسُفْیَانَ أَنَّ ھِرَقْلَ دَعَا بِکِتَابِ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَقَرَأَ فَإِذَا فِیْہِ ﴿بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قُلْ یٰأَھْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلٰی کَلِمَۃٍ…﴾[1] ’’مجھے ابو سفیان نے خبر دی کہ ہرقل نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا تو اس میں یہ موجود تھا:’’اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ اے اہل کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے مابین مشترک ہے۔۔۔‘‘ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے: ((وَ وَجْہُ الدَّلَالَۃِ مِنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم کَتَبَ إِلَی الرُّوْمِ وَ ھُمْ کُفَّارٌ وَّالْکَافِرُ جُنُبٌ، کَأَنَّہٗ یَقُوْلُ إِذَا جَازَ مَسُّ الْکِتَابَ لِلْجُنُبِ مَعَ کَوْنِہٖ مُشْتَمِلًا عَلٰی اٰیَتَیْنِ فَکَذٰلِکَ یَجُوْزُ لَہٗ قِرَائَ تُہٗ، کَذَا قَالَہُ ابْنُ رَشِیْدٍ وَ تَوْجِیْہُ الدَّلَالَۃِ مِنْہُ إِنَّمَا ھِیَ مِنْ حَیْثُ إِنَّہٗ إِنَّمَا کَتَبَ إِلَیْھِمْ لِیَقْرَؤُوْہُ فَاسْتَلْزَمَ جَوَازُ الْقِرَائَ ۃِ بِالنَّصِّ لَا بِالْاِسْتِنْبَاطِ۔ وَ قَدْ أُجِیْبَ مِمَّنْ مَّنَعَ ذٰلِکَ، وَ ھُمُ الْجُمْھُوْرُ، بِأَنَّ الْکِتَابَ اشْتَمَلَ عَلٰی أَشْیَائَ غَیْرَ الْاٰیَتَیْنِ، فَأَشْبَہَ مَا لَوْ ذُکِرَ بَعْضُ الْقُرْاٰنِ فِیْ کِتَابِ الْفِقْہِ أَوْ فِی التَّفْسِیْرِ فَإِنَّہٗ لَا یُمْنَعُ قِرَائَ تُہٗ وَ لَا مَسُّہٗ
[1] فتاوی الجنۃ الدائمۃ: 4/75.