کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 54
ہے اور اس بارے کئی ایک روایات معروف ہیں۔ امام الحرمین رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس نے بغیر وضو تلاوت کر کے کوئی مکروہ کام کیا ہے البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ترک ِافضل ہے۔ پس اگر اسے پانی میسر نہ ہو تو تیمم کر لے۔‘‘ جہاں تک جنبی کا تعلق ہے تو جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ اس کے لیے قرآن مجید کی تلاوت جائز نہیں ہے، چاہے دل ہی سے یا مصحف کو چھوئے بغیر ہی کیوں نہ ہو۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: ((وَ الْأَرْبَعَۃُ أَیْضًا لَا یَجُوْزُوْنَ لِلْجُنُبِ قِرَائَ ۃَ الْقُرْاٰنِ۔))[1] ’’ائمہ اربعہ کا موقف یہی ہے کہ جنبی کے لیے قرآن مجید کی تلاوت جائز نہیں ہے۔‘‘ حالت حیض ونفاس میں مصحف کو چھوئے بغیر قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں علماء کے دواقوال میں سے راجح قول یہی ہے کہ یہ جائز ہے کیونکہ اس کی ممانعت کے بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز مروی نہیں ہے۔ علماء کی مستقل کمیٹی نے ایک سائلہ کے جواب میں یہ فتوی دیا ہے: ((یَجُوْزُ لَکِ أَنْ تَقْرَئِ ی الْقُرْاٰنَ وَ أَنْتِ حَائِضٌ وَ أَنْ تَعُلِّمِی الْحُیَّضَ التِّلَاوَۃَ وَ التَّجْوِیْدَ حَالَ الْحَیْضِ دُوْنَ مَسِّ الْمُصْحَفِ۔))[2] ’’تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم حالت حیض میں قرآن مجید کو چھوئے بغیر اس کی تلاوت کرو اور حیض والی خواتین کو حالت حیض میں قرآن مجید کی تلاوت اور تجوید کی تعلیم دو۔‘‘
[1] مجموع الفتاوی: ۲۱: ۲۶۸. [2] فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: ۴-۷۴.