کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 51
حاصل کر لیتا تھا۔‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ اس قسم کے انعامات کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ محض مادی معاوضے یا سزا میں تخفیف کے لیے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کریں گے تو ہم اس کا جواب یہ دیں گے کہ کیا معلوم یہی ان کی ہدایت کا سبب بھی بن جائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ((قَالَ الْعُلَمَائُ: وَ لَا یُمْتَنَعُ عَنْ تَعْلِیْمِ أَحَدٍ لِّکَوْنِہٖ غَیْرَ صَحِیْحِ النِّیَّۃِ فَقَدْ قَالَ سُفْیَانُ وَ غَیْرُہٗ: طَلَبُھُمْ لِلْعِلْمِ نِیَّۃٌ وَ قَالُوْا: طَلَبْنَا الْعِلْمَ لِغَیْرِ اللّٰہِ فَأَبٰی أَنْ یَّکُوْنَ إِلَّا لِلّٰہِ۔))[1] ’’اہل علم کا کہنا ہے کہ کسی کو صرف اس وجہ سے قرآن مجید کی تعلیم سے نہیں روکا جائے گا کہ اس کی نیت درست نہیں ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ وغیر ہ نے کہا ہے: ان کا علم کے لیے کوشش کرنا ہی ان کی نیت ہے۔اور بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم نے غیر اللہ کی نیت سے علم حاصل کرنا شروع کیا اور بعد میں اس علم کی برکت سے وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے مختص ہو گیا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض گورنروں کو لکھ بھیجا کہ وہ لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم پر وظائف جاری کریں۔ تو کسی نے جواب میں لکھا کہ آپ نے ہمیں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے پر وظائف دینے کا حکم دیا تھا اور اب ایسے لوگ بھی قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے لگیں ہیں جنہیں سوائے وظیفے کے اور کسی چیز سے غرض نہیں ہے۔ اس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ تم انہیں قرآن مجید سے محبت اور اس کی صحبت کے بدلے کچھ دے دو۔ اس کے برعکس ابو عبید رحمہ اللہ اور دوسرے علماء نے اسیر بن عمرو رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: ((بَلَغَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ أَنَّ سَعْدًا رضی اللّٰه عنہ قَالَ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْاٰنَ أَلْحَقْتُہٗ فِیْ أَلْفَیْنِ فَقَالَ عُمَرُ: أُفٍّ أُفٍّ!
[1] التبیان فی آداب حملۃ القرآن: ص۴۹.