کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 45
((زَوِّجْنِیْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔ قَالَ أَعِنْدَکَ شَیْئٌ؟ قَالَ: مَا عِنْدِیْ مِنْ شَیْئٍ۔ قَالَ: وَ لَا خَاتَمًا مِّنْ حَدِیْدٍ؟ قَالَ: وَ لَا خَاتَمًا، وَلٰکِنْ أَشُقُّ بِرِدَتِیْ ھٰذِہٖ فَأُعْطِیْھَا النَّصْفَ وَ اٰخُذُ النِّصْفَ۔ قَالَ: ھَلْ مَعَکَ مِنَ الْقُرْاٰنِ شَیْئٌ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ قَالَ: اِذْھَبْ فَقَدْ زَوَّجْتُکَھَا بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْاٰنِ۔))[1] ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ نے کہا: کیالوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ہے؟ اس نے کہا: نہیں! وہ بھی نہیں ہے۔البتہ میرے پاس یہ چادر ہے، میں اسے دو حصوں میں تقسیم کیے دیتا ہوں۔ آدھی خود رکھ لوں گا اور آدھی اسے دے دوں گا۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ قرآن ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! آپ نے کہا: جاؤ! میں نے تمہارا نکاح اس کے ساتھ اس قرآن کے بدلے کر دیا جو تمہارے پاس ہے۔‘‘ اگر ہم ان دلائل پر غور کریں تو پہلے تین دلائل تو قرآن مجید کی جھاڑ پھونک کی اجرت وصول کرنے کے بارے ہیں نہ کہ تعلیم وتدریس کا معاوضہ حاصل کرنے کے بارے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ((لَا نُسَلِّمُ أَنَّ جَوَازَ أَخْذِ الْأَجْرِ فِی الرُّقٰی یَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ التَّعْلِیْمِ بِالْأَجْرِ۔)) ’’ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ جھاڑ پھونک کی اجرت لینے کے جواز سے تدریس قرآن کی اجرت لینے کا جواز بھی ثابت ہو جاتا ہے۔‘‘ چوتھی روایت میں تعلیم قرآن کو معاوضہ بنایا گیا ہے اور اسے حق مہر کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس بارے یہ بھی کہاجا سکتا ہے چونکہ وہ شخص فقیر تھا لہٰذا اس کے لیے یہ جواز
[1] صحیح البخاری: ۶-۱۳۴.