کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 44
اس وقت تک ان بکریوں کو استعمال نہ کریں گے جب تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم نہ کر لیں۔ پس جب انہوں نے آپ سے پوچھا تو آپ مسکرا دیے اور کہا: ((وَ مَا أَدْرَاکُمْ أَنَّھَا رُقْیَۃٌ، خُذُوْھَا وَ اضْرِبُوْا لِیْ بِسَھْمٍ۔))[1] ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ جھاڑ پھونک ہے۔ یہ اجرت لے لو اور اس میں میرا حصہ بھی مقرر کرو۔‘‘ ۳۔ خارجہ بن صلت رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ پھر جب واپس اپنی قوم کی طرف جانے لگے تو راستے میں ان کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جسے مرگی کا دورہ پڑتا تھا اور اسے لوہے کی زنجیروں سے باندھا گیا تھا۔ اس کے گھروالوں نے کہا کہ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ جس شخص کے پاس سے تم ہو کر آ رہے ہو، وہ کچھ بھلائی لے کر آئے ہیں۔ کیاان کے پاس کچھ ایسا ہے کہ ہمارے اس مریض کا علاج کر سکیں۔ چچا نے کہاکہ میں نے اس شخص پر سورۃ فاتحہ دم کی۔ راوی وکیع نے کہا ہے کہ یہ دم تین دن تک صبح وشام تھا۔ پس وہ شخص تندرست ہو گیا تو اس کے گھر والوں نے انہیں ایک سو بکریاں دیں۔ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو خبر دی توآپ نے کہا: ((خُذْھَا فَلَعُمْرِیْ مَنْ أَکَلَ بِرُقْیَۃِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَکَلْتَ بِرُقْیَۃِ حَقٍّ۔))[2] ’’میری عمر کی قسم! اسے لے لو، جس نے باطل جھاڑ پھونک سے کھایا تو و ہ درست نہیں ہے اور تو نے تو حق جھاڑ پھونک کی ہے۔‘‘ ۴۔ سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے کہ ایک خاتون آپ کے پاس آئی اور اس نے اپنا آپ نکاح کے لیے پیش کیا۔ آپ نے اسے ایک نظر دیکھا اور خاموش رہے۔ اس دوران صحابہ میں سے ایک شخص نے آپ سے کہا:
[1] صحیح البخاری: ۷-۲۳. [2] مسند أحمد: ۵-۲۱۱.