کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 43
سے ہوا کہ جہاں ایک شخص کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔گھاٹ کے قریب رہنے والوں میں سے ایک شخص صحابہ کی جماعت کے پاس آیااور پوچھا کہ کیا آپ لوگوں میں کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے کہ پانی کے قریب ایک شخص کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ صحابہ میں سے ایک شخص اس کے ساتھ چلا گیا اور اس نے چند بکریوں کے عوض سورۃ فاتحہ کا دم کیا اور بکریاں لے کر واپس آ گیا۔ بقیہ صحابہ نے اس کے اس عمل کو ناپسند جانا اور کہا کہ تو نے کتاب اللہ کے عوض اجرت وصول کی ہے۔ یہاں تک جب صحابہ کی وہ جماعت مدینہ تشریف لائی تو انہوں نے کہا: ((یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَخَذَ عَلٰی کِتَابِ اللّٰہِ أَجْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم : إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا کِتَابُ اللّٰہِ۔))[1] ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس شخص نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان سب سے زیادہ حقدار اس اجرت کا ہے جو وہ کتاب اللہ کے بدلے میں لے۔‘‘ ۲۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت کا عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلے سے گزر ہواتو قبیلے والوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ ابھی صحابہ کی جماعت وہیں تھی کہ اس قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔ تو انہوں نے صحابہ سے کہا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس کے پاس سانپ کے کاٹے کی دوا یا جھاڑ پھونک ہو۔ صحابہ نے کہا کہ تم نے ہماری مہمان نوازی نہ کی لہٰذا ہم یہ کام اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک تم ہمیں اس کا معاوضہ نہ دو۔ تو انہوں نے بکریوں کا ایک ریوڑاجرت میں طے کر دیا۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرنا شروع کی اور وہ ساتھ ہی اپنی تھوک جمع کرکے تھوڑی تھوڑی پھینکتے جاتے تھے۔ دم سے وہ سردار تندرست ہو گیا اور وہ قبیلے والے بکریاں لے آئے۔ پس صحابہ نے کہا کہ ہم
[1] صحیح البخاری: ۷-۲۳.