کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 42
’’جو لوگ اجرت لینے کے جواز کے قائل ہیں، انہوں نے حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ کی روایت کی تاویل یہ کی ہے کہ انہوں نے اپنے اس عمل سے نیکی اور اجر وثواب کی نیت کی تھی اور تعلیم کے وقت ان کامقصود کوئی معاوضہ یا نفع لینا نہ تھا۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے اجر کے ضائع ہونے سے ڈرایا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کسی دوسرے کی گمشدہ یاسمندر میں ڈوب جانے والی چیز نیکی اور اجر وثواب کی نیت سے ڈھونڈ نکالتا ہے تو اب اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کا کچھ معاوضہ لے۔ ہاں! اگر اس نے تلاش سے پہلے اس کی کوئی اجرت طے کی تھی تو وہ لینا اس کے لیے جائز ہو گا۔ اہل صفہ فقراء اور مساکین میں سے تھے جن کا گزر بسر صدقات پر ہوتا تھا۔ پس کسی شخص کا ان سے کچھ لینا مکروہ جبکہ دینا مستحب امر تھا۔‘‘ حضرت عمران رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قرآن مجید کے ذریعے سوال کرنے کی ممانعت ہے جبکہ معاوضے کے طور اجرت لینا سوال کرنے میں داخل نہیں ہے۔ یہ جوابات اس صورت دیے گئے ہیں جبکہ ان روایات کی صحت ثابت ہو جائے جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ ان روایات پر اس قدر جرح موجود ہے کہ یہ قابل حجت نہیں ہیں۔ یہاں تک امام نووی رحمہ اللہ نے تو یہ کہہ دیا ہے: ((لَیْسَ فِی الْبَابِ حَدِیْثٌ یَّجِبُ الْعَمَلُ بِہٖ مِنْ جِھَۃِ النَّقْلِ۔))[1] ’’اس مسئلے میں کوئی ایسی حدیث منقول ہی نہیں ہے کہ جس پر عمل واجب ہو۔‘‘ دوسرا قول: مالکیہ، شافعیہ، امام احمد رحمہم اللہ کی ایک روایت اور بلخ کے حنفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔ جواز کے قائلین نے درج ذیل دلائل کو بنیاد بنایا ہے: ۱۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت کا گزر کسی گھاٹ
[1] التذکار فی أفضل الأذکار: ۱۴۹.