کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 40
تعلیم دی اور اس نے مجھے ایک کمان ہدیہ کی تو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ((إِنْ أَخَذَتْھَا أَخَذْتَ قَوْسًا مِّنْ نَّارٍ۔))[1] ’’اگر تو نے اسے قبول کیا تو یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ تو نے آگ کی ایک کمان قبول کی۔‘‘ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے وہ کمان اس شخص کو لوٹا دی۔ ۵۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے: ((اِقْرَؤُوا الْقُرْاٰنَ وَ سَلُوا اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی بِہٖ فَإِنَّ مِنْ بَعْدِکُمْ قَوْمًا یَقْرَؤُوْنَ الْقُرْاٰنَ یَسْأَلُوْنَ النَّاسَ بِہٖ۔))[2] ’’قرآن مجید پڑھو اور اللہ تعالی سے ا س کے ذریعے سوال بھی کرو۔ تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن مجید پڑھیں گے اور اس کے ذریعے لوگوں سے سوال کریں گے۔‘‘ جو لوگ اجرت لینے کے جواز کے قائل ہیں، انہوں نے ان دلائل کے یوں جواب دئیے ہیں: حضرت عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ کی روایت اس شخص کے بارے میں ہے جو قرآن مجید کو کھانے اور مال سمیٹنے کا ذریعہ ہی بنا لے۔ اگر سیکھنے والا اپنی خوشی سے مدرس کو کچھ دے دے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے جبکہ معلم زیادہ کا مطالبہ بھی نہ کرے۔ جہاں تک حدیث جابر رضی اللہ عنہ کا معاملہ ہے تو اس میں مدرس کے لیے اس بات کو لازم قرار دیا گیاہے کہ اس کا مقصود محض قرآن مجید کے حروف کو سیدھا کرنا ہی نہ بن جائے۔ یا وہ
[1] سنن ابن ماجۃ: ۲-۷۳۰. [2] مسند أحمد: ۴-۴۳۷.