کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 36
کے چنیدہ بندوں کا معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی تکمیل کے علاوہ دوسروں کو بھی کمال تک پہنچانے کی کوشش کریں جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں۔ اور جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اور اس سے بہترین بات کس کی ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ پس اللہ کی طرف دعوت دینا، چاہے اذان کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں، تو وہ اس میں شامل ہے۔ مثلا قرآن مجید، حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم جب اللہ کی رضا کے لیے دے گا تو یہ بھی دعوت الی اللہ کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ اس کے ساتھ اگروہ صالح اعمال بھی کرے یا بعض نے کہا کہ اس کی باتیں صالح ہوں تو کوئی بھی اس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔‘‘
یہ بات بھی واضح ہے کہ تعلیم کے مراحل میں سے بہترین مرحلہ بچپن کی تعلیم کا ہے کیونکہ جو وہ سیکھتا ہے اسی کے مطابق ہی وہ پروان چڑھتا ہے۔امام سیوطی رحمہ اللہ نے کہاہے:
((تَعْلِیْمُ الصِّبْیَانِ الْقُرْاٰنَ أَصْلٌ مِنْ أُصُوْلِ الْإِسْلَامِ فَیَنْشَأُوْنَ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَ یَسْبِقُ إِلٰی قُلُوْبِھِمْ أَنْوَارُ الْحِکْمَۃِ قَبْلَ تَمَکُّنِ الْأَھْوَائِ مِنْھَا، وَ سَوَادِھَا بِأَکْدَارِ الْمَعْصِیَۃِ الضَّلَالِ۔ فَیَنْبَغِیْ لِوَلِیِّ الصَّغِیْرِ وَ الصَّغِیْرَۃِ أَنْ یَّبْدَأَ بِتَعْلِیْمِھِمَا الْقُرْاٰنَ مُنْذُ الصِّغْرِ وَ ذٰلِکَ لِأَجْلِ أَنْ یَّتَوَجَّھَا إِلَی اعْتِقَادِ أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی ھُوَ رَبُّھُمْ، وَأَنَّ ھٰذَا کَلَامُہٗ تَعَالٰی، وَ لِأَجْلِ أَنْ یَّسْرِیَ حُبُّ الْقُرْاٰنِ فِیْ قُلُوْبِھِمْ، یُشْرِقُ نُوْرَہٗ فِیْ عُقُوْلِھِمْ، وَ أَفْکَارِھِمْ، مَدَارِکِھِمْ، وَحَوَاسِھِمْ، وَ لِأَجْلِ أَنْ یَّتَلَقَّنَّا عَقَائِدَ الْقُرْاٰنِ مُنْذُ الصِّغْرِ، وَ أَنْ یَّنْشَأَ وَ یَشِبَّ عَلَی التَّخَلُّقِ بِخُلُقِ الْقُرْاٰنِ، وَ الْاِئْتِمَارِ بِأَمْرِہٖ، وَاجْتِنَابِ نَوَاھِیْہِ، لِأَنَّ التَّعَلُّمَ فِی الصِّغْرِ أَرْسَخُ فِی