کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 35
تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَ عَلَّمَہٗ۔ وَ کَمَا قَالَ تَعَالٰی: ﴿وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَ قَالَ إِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ،﴾ فَجَمَعَ بَیْنَ الدَّعْوَۃِ إِلَی اللّٰہِ سَوَائً کَانَ بِالْأَذَانِ أَوْ بِغَیْرِہٖ مِنْ أَنْوَاعِ الدَّعْوَۃِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی مِنْ تَعْلِیْمِ الْقُرْاٰنِ وَ الْحَدِیْثِ وَالْفِقْہِ وَ غَیْرِ ذٰلِکَ مِمَّا یَبْتَغِیْ بِہٖ وَجْہَ اللّٰہِ، وَ عَمِلَ ھُوَ فِیْ نَفْسِہٖ صَالِحًا وَ قَالَ قَوْلًا صَالِحًا أَیْضًا فَلَا أَحَدٌ أَحْسَنُ حَالًا مِّنْ ھٰذَا۔))[1]
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں اور یہ اہل ایمان اور نبیوں کے پیروکاروں کی صفت ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے بھی مفید ہوتے ہیں اوردوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس کا فائدہ اپنے آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی ہے۔ اس کے برعکس سرکش کفار کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو تو کوئی فائدہ پہنچا لیتے ہیں لیکن اپنی امکان بھرطاقت کے بل پر کسی کو فائدہ اٹھانے نہیں دیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے رستے سے رک گئے یا روک دیاتوہم انہیں عذاب میں بڑھاتے ہی جائیں گے۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے کہ وہ کفار اس قرآن مجید سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے رک جاتے ہیں۔ مفسرین کے صحیح ترین قول کے مطابق اس آیت سے مراد قرآن مجید کی اتباع سے رک جانا اور منع کرنا ہے۔ پس ان کفار نے جھٹلانے کے علاوہ قرآن مجید پر عمل نہ کرنے کو بھی اپنے کفر میں شامل کر لیا جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا اور ان سے اعراض کیا۔ پس یہ شریر کفار کا معاملہ ہے جبکہ اللہ
[1] فضائل القرآن لابن کثیر: ۷۴۔۷۵.