کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 33
الْفَقِیْہِ۔ قُلْنَا: لَا، لِأَنَّ الْمُخَاطَبِیْنَ بِذٰلِکَ کَانُوْا فُقَھَائَ النُّفُوْسِ لِأَنَّھُمْ کَانُوْا أَھْلَ اللِّسَانِ فَکَانُوْا یُدْرُوْنَ مَعَانِی الْقُرْاٰنِ بِالسَّلِیْقَۃِ أَکْثَرَ مِمَّا یُدْرِیْھَا مَنْ بَعْدَھُمْ بِالْاِکْتِسَابِ، فَکَانَ الْفِقْہُ لَھُمْ سَجِیَّۃً، فَمَنْ کَانَ فِیْ مِثْلِ شَأْنِھِمْ شَارَکَھُمْ فِیْ ذٰلِکَ لَا مَنْ کَانَ قَارِئً ا أَوْ مُقْرِئً ا مَحْضًا لَا یَفْھَمُ شَیْئًا مِنْ مَّعَانِیْ مَا یَقْرَؤُوْہُ أَوْ یُقْرِؤُوْہُ۔))[1] ’’اگر یہ کہا جائے کہ اس روایت کے ان الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاری قرآن، فقیہ سے افضل ہے۔ تو ہم جواب میں یہ کہیں گے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے اول مخاطبین فقہاء تھے کیونکہ وہ اہل زبان ہونے کی وجہ سے جس کلام کے الفاظ سیکھ رہے تھے، اس کے معانی ان لوگوں سے بہتر طور جانتے تھے کہ جو ان کے بعد آنے والے تھے کہ جنہیں ان معانی کے جاننے کے لیے کافی محنت کرنا پڑتی ہے۔ تفقہ ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ تو جو تو ان صحابہ جیسا ہو گا تو وہ اس روایت کے مفہوم میں شامل ہے، محض یہ وجہ اس فضیلت کو پانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ قاری یا مقری ہے اور اسے کچھ سمجھ نہیں کہ کیا پڑھ رہا ہے یا پڑھا رہا ہے۔‘‘ جہاں تک قرآن مجید کی تدریس کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ افضل ترین نیکی اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے والے اعمال میں سے ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ سے جہاد اور قرآن مجید پڑھانے کے بارے سوال ہوا تو انہوں نے قرآن مجید کی تعلیم دینے کو افضل قرار دیا اور دلیل میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی۔[2] پس یہ فضیلت صرف اسی کے لیے ہے جس نے قرآن مجید کا علم اور عمل ایک ساتھ
[1] فتح الباری: ۸-۶۹۴. [2] فتح الباری: ۸-۶۹۵.