کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 116
عمل کے دوران طلباء سے سوال وجواب اور مناقشہ کرنا، یہ سب القاء ہی کی قسمیں ہیں۔ چوتھا مرحلہ جو کہ تطبیق کا ہے، اس میں مدرس کو قیاسی طریق کار پر توجہ دینی چاہیے۔ استاذ اپنے طلباء سے کہے کہ وہ ایسی مثالیں لائیں جو سبق کے قاعدے کی وضاحت کرتی ہوں۔ استاذ طلباء کو ایسی سورت تلاوت کرنے کا بھی کہہ سکتا ہے کہ جس میں متعلقہ قاعدے یا حکم کی بکثرت مثالیں موجود ہوں اور انہیں یہ کہے کہ وہ قاعدے سے مطابقت رکھنے والی مثالیں تلاش کریں۔یہ اسلوب طلباء کے ذہن میں قاعدے اور اس سے متعلقہ معلومات کو راسخ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ استقرائی اور قیاسی طریق کار میں موازنہ: استقرائی طریق کار میں استاذ خاص سے عام اور مثالوں سے تعریف یا حکم کی طرف جاتا ہے۔ اس طریق کار میں طلباء بھی اپنا ذہن لگاتے ہیں تا کہ وہ تجوید کے کسی حکم یا قاعدے یا تعریف تک پہنچ سکیں۔ قیاسی طریق کار میں مدرس عام سے خاص یاقاعدے اور حکم سے مثالوں کی طرف جاتا ہے تا کہ مثالوں کے ذریعے اس قاعدے کو خوب واضح کر دے اور وہ طلباء کے ذہن میں اچھی طرح بیٹھ جائے۔اس طریق کار میں طلباء کی کوئی قابل ِذکر محنت شامل نہیں ہوتی کیونکہ مدرس ہی قاعدہ بیان کرتا ہے اور وہی اس کی مثالیں بھی لاتا ہے اور طلباء خاموشی سے اس کو سنتے ہیں۔اس طریق کار میں طلباء قاعدے یا حکم سے متعلق ہر شیء کو جاننے کے لیے استاذ پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ محض قاعدے کا بیان سن کر طالب علم کے لیے قرآن مجید سے اس کی مثالیں تلاش کرنا ایک مشکل کام ہے، چاہے اس کی ذہنی سطح بلند ہی کیوں نہ ہو۔ استقرائی طریق کار مثبت ہے، مراد یہ ہے کہ مثالوں اوران کے مابین باہمی تعلق کو جاننے اور ان سے قاعدہ یا قانون اخذ کرنے میں استاذ اور طلباء باہم شریک ہوتے ہیں۔ قیاسی طریق کار منفی ہے کیونکہ اس میں طلباء استاذ پر کلی اعتماد کرتے ہیں۔ہاں ! یہ ہو سکتا ہے کہ استاذ اس منفی پہلو کو ختم کرنے کی کوشش کرے تا کہ طالب علم اپنے استاذ کے لیکچر سے