کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 115
قاعدے کے تحت آنے والی مثالوں کے بیان اور قاعدے کی تطبیق کے لیے طلباء کے ذہن کوتیار کیا جا سکے۔ ۴۔ تطبیق اس سے مراد کسی ایک سورت کی تلاوت کے ذریعے اس قاعدے کے تحت آنے والی مثالوں کا بیان ہے تا کہ وہ قاعدہ طلباء کے اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔ اگر ابتدائی کلاسز میں قیاسی طریق کار کی بات کی جائے تو اس صورت میں مدرس کا براہ راست عمل دخل بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جیسا کہ وہ طلباء کے سامنے قاعدہ کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ اگرچہ سبق میں استاذ کا براہ راست عمل دخل نہ بھی ہو تو بالواسطہ عمل دخل ہو گامثلاً وہ طلباء کو سورتوں یا آیات میں موجود قاعدے کی مثالوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ پس اس طریق کار میں طلباء کی محنت کو مرکزیت حاصل نہیں ہے جب تک کہ مدرس خود ہی قواعد بیان کر رہا ہو اور اس کی مثالیں بھی خود ہی دے رہا ہو۔ اس طرح قیاسی طریق کار بھی عملی اعتبار سے القائی طریق کار کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ پس اس صورت میں طالب علم محض استاذ کی کاوش پر اعتماد کر تاہے اور استاذ کی محنت پر اکتفاکر لینے کا عادی ہو جاتا ہے۔اس سے بچنے کے لیے مدرس کو چاہیے کہ وہ جب کسی قاعدہ کے ساتھ مثالیں بیان کرے تو کچھ اور بھی ایسی مثالیں اپنے پاس رکھے جو اس قاعدے کے تحت داخل نہ ہوں۔ پھر ان مثالوں کو آپس میں گڈ مڈ کر کے طالب علم کے سامنے رکھے تا کہ طالب علم میں اجنبی مثالوں کو پہچاننے اور قاعدے کے تحت آنے والی مثالوں کی تنظیم اور ترتیب کی سوچ بیدار ہو۔ پس بہترین صورت تو یہی ہے کہ اساتذہ کو دوران تدریس القائی، قیاسی اور استقرائی تینوں طریقوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ پس مدرس کو چاہیے کہ وہ تربیتی عمل کے دوران ابتدائی مراحل میں القائی اور استقرائی دونوں قسم کے طریقوں کی مبادیات مثلاً مقدمہ، عرض اور استنباط سے استفادہ کرے کیونکہ استنباط کا عمل القاء کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مثلاً مدرس کا مختلف مثالوں کی تلاوت کرنا یا استنباطی