کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 110
کے مطابق ہمیں تعلیمی وسائل سے لازماً مدد لینی چاہیے۔ ۲۔ طلباء کی ذہنی سطح کے مطابق مناسب اسلوب میں ان مثالوں کے ذریعے مناقشہ کرنا۔ ۳۔ استنباط اور استقراء کے لیے سوالات کی ایک فہرست تیار کرنا۔ ۴۔ جزئیات کو اس طرح ترتیب دینا کہ ایک قاعدہ یا تعریف تک پہنچنا ممکن ہو سکے۔ یہاں ہم یہ اشارہ کرتے چلیں کہ قرآن کے استاذ کو قرآن مجید سے کثرت سے مثالیں لینی چاہئیں تا کہ طلباء کے لیے قواعد کا استنباط آسان ہو۔ یہ بھی بہتر ہے کہ محل ِشاہد کو دیگر الفاظ یا کلمات کی نسبت علیحدہ رنگ دیا جائے۔ مدرس کے اس طرح مثالیں تیار کرنے پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اس صورت میں سبق کا بوجھ مدرس پر آجاتا ہے اور طالب علم کو بنی بنائی مثالیں پکڑا دینے سے سبق میں اس کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہو جائے گی۔اس اعتراض کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے: ۱۔ تجوید کے احکام کے قواعد کی مثالیں قرآن مجید ہی سے ہونی چاہییں۔ ۲۔ تجوید کے کسی بھی قاعدے یا حکم کی مثالیں محض ایک ہی سورت میں نہیں ہوتی (لہٰذا طالب علم کو دوسری سورتوں میں ایسی مثالیں تلاش کرنے کا ہوم ورک دیا جا سکتا ہے۔) ۳۔ کلاس میں طلباء کو مثالیں تلاش کرنے پر لگانا ان کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے کیونکہ کلاس کا نصف وقت اسی کام میں لگ جائے گااور دوسرے کاموں کے لیے وقت نہیں بچے گا۔ ۴۔ تجوید کی مثالیں کئی اعتبارات سے دوسرے علوم مثلاً صرف، نحو یا ریاضی وغیرہ کی مثالوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ طرق تدریس میں استقرائی طریقہ کار کو کئی اعتبار سے بہترین طریق کار کہا جاتا ہے: ۱۔ یہ منطقی طریق کار ہے کہ جس میں موضوع کی تدریس جزئیات سے کلیات کی طرف ہوتی ہے۔ ۲۔ یہ طریق کار طلباء میں ذاتی محنت کے ذریعے تجوید کے احکام اور قواعد سیکھنے اور ان میں