کتاب: تجوید کی تدریس کے طریقے - صفحہ 109
اتنی مہلت دے دیتے ہیں کہ وہ بھی سبق کا کچھ بوجھ برداشت کر یں۔[1] استقرائی طریقہ کار کی تعریف: اس طریق کار کو استنباطی طریق کار بھی کہتے ہیں۔[2] اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جزء سے کل کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس طریق کار میں استاذ اپنے طالب علم کی اس طرح رہنمائی کرتا ہے کہ وہ کلی حقائق، احکامِ تجوید، عمومی قواعد اور جامع تعریف کی بذریعہ استنباطِ معرفت حاصل کر سکے۔اس میں استاذ اور طالب علم پہلے جزئیات کے بارے بحث کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے کلی حقائق، قواعد اور تعریفات تک پہنچ سکیں۔ اس میں تحقیق مدرس کی نگرانی میں ہوتی ہے اور مثالوں کے مطالعہ اور مناقشہ سے وہ قاعدہ اخذ کیا جاتا ہے کہ جسے مدرس اپنے طالب علم کے ذہن میں بٹھانا چاہتا ہے تا کہ وہ تلاوت کے وقت اس کی تطبیق کر سکے۔ استقرائی طریق کار میں مدرس کا کام: ۱۔ مدرس کا کام یہ ہے کہ وہ ایسی مثالیں تیار کرے جو مطلوبہ ضابطے سے متعلق ہوں۔ اس بات کا بھی لحاظ رکھے کہ وہ یہ مثالیں چارٹ، فلیکس یا شفاف سلائڈز وغیرہ پر تیار کرے کیونکہ اس طریقے سے تدریس میں کسی حد تک تدریج مقصود ہوتی ہے۔ اس طریق کار
[1] ماہر مدرس وہ ہے جو طالب علم کی سوچ کی مرحلہ وار رہنمائی کرے، اور انہیں محض اپنی تقلید یا بغیر سوچے سمجھے تردید پر ہی نہ لگائے۔ اس طرز عمل سے بغیر سوچے سمجھے تقلید کرنے والے توپیدا ہو سکتے ہیں لیکن غور وفکر کرنے والے انسان نہیں۔ استاذ کو چاہیے کہ وہ طلباء میں یہ شوق بیدار کرے کہ وہ سوچ بچار کیا کریں اور اپنے الفاظ پر اپنی قدرت کے مطابق غور کریں۔ یہ طریقہ کار درست نہیں ہے کہ تدریس کے عمل کا بوجھ صرف مدرس پر ہی پڑے اور طلباء کا سبق میں کوئی کردار نہ ہو۔ اور استاذ صرف معلومات بیان کرنے پر ہی اکتفا کر لے اور شاگرد صرف انہی معلومات تک محدود ہو جائے جو اسے استاذ نے دی ہیں۔ یہ طرز عمل اچھے خاصے ذہین طالب علم کو بھی کند ذہن بنا دیتا ہے۔ (التربیۃ وطرق التدریس: ۱-۲۰۰). [2] استنباط سے مراد انسان کا پہلے سے معلوم خبروں، واقعات اور مثالوں سے مزید معلومات اخذ کرنا ہے۔ یہ ایک فکری اور منطقی رویہ ہے کہ جسے ہمارے سلف صالحین نے کثرت سے استعمال کیا ہے جیسا کہ انہوں نے نحو کے قواعد قرآنی آیات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیے ہیں۔ (التربیۃ وطرق التدریس: ۱-۶۰).