کتاب: تحریف النصوص ( حصہ اول ) - صفحہ 9
جناب علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ بھیجا اس پر ایک انصاری (عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ) کو امیر مقرر فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ اس انصاری کی اطاعت کریں۔ دورانِ سفر انصاری کو کسی بات پر غصہ آگیا اور اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کیوں نہیں۔ انصاری نے کہا کہ میرے لئے لکڑیاں جمع کرو۔ پس انہوں نے جمع کر دیں پھر اس نے کہا کہ ان لکڑیوں سے آگ روشن کرو چنانچہ انہوں نے آگ روشن کی۔ پس اس انصاری نے کہا کہ اب اس آگ میں داخل ہو جاؤ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ارادہ کیا اور ان کی حالت یہ تھی کہ بعض نے بعض کو پکڑ رکھا تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آگ سے بچنے کے لئے ہی ایمان لائے تھے۔ پس اسی کشمکش کے دوران آگ بجھ گئی اور انصاری کا غصہ بھی رفع ہو گیا۔ پس یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس سے نہ نکل سکتے۔ (امیر کی) اطاعت صرف معروف میں ہے، (صحیح بخاری کتاب المغازی باب سریہ عبداللہ بن حذافہ السمی الرقم:۴۳۴۰) اور دوسری روایت میں ہے: لا طاعۃ فی المعصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف (بخاری:۷۲۵۷) معصیت میں کوئی اطاعت نہیں، اطاعت تو صرف معروف کے کاموں میں ہے۔ جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مسلمانوں کے امیر کا) حکم سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ حکم پسند نہ آئے جب تک تمہیں کسی گناہ کا حکم نہ دے اور جب وہ گناہ کا حکم دے تو