کتاب: تحریف النصوص ( حصہ اول ) - صفحہ 34
دیوبندی صاحب نے اس سوال کا درج ذیل جواب دیا: جواب: مسبوق یعنی جو پہلی رکعت کے بعد امام کے ساتھ شریک ہوا وہ سجدہ سہو میں امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے، اگر عمداً پھیر دعا تو نماز جاتی رہی، سہواً پھیرا تو سجدہ سہو لازم ہے، مسئلہ سے جہالت کی بناء پر پھیرا تو بھی نماز فاسد ہو گئی، عوام کے لئے دلائل طلب کرنا جائز نہیں، نہ آپس میں مسائل شرعیہ پر بحث کرنا جائز ہے، بلکہ کسی مستند مفتی سے مسئلہ معلوم کر کے اس پر عمل کرنا ضرور ی ہے۔‘‘ (ہفت روزہ ضرب مومن جلد:۳ شمارہ:۱۵،۲۱ تا ۲۷ ذوالحجہ ۱۴۱۹ھ ۹ تا ۱۵، اپریل ۱۹۹۹، ص ۶ کالم: آپ کے مسائل کا حل) ۷۔ صحیح ہدیث میں آیا ہے کہ: من ادرک من الصبح رکعۃ قبل أن تطلع الشمس فقد ادرک الصبح جس نے صبح کی ایک رکعت، سورج کے طلوع ہونے سے پہلے پا لی تو اس نے یقینا صبح (کی نماز) پالی۔ (بخاری:۵۷۹ و مسلم:۶۰۸)۔ فقہ حنفی اس صحیح حدیث کا مخالف ہے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی اس مسئلے پر کچھ بحث کر کے لکھتے ہیں: ’’غرضیکہ یہ مسئلہ اب تک تشنہء تحقیق ہے۔ معہذا ہمارا فتوی اور عمل قولِ امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مطابق ہی رہے گا اس لئے کہ ہم امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لئے قولِ امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلہء اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفہء مجتہد ہے۔‘‘ (ارشاد القاری الی صحیح البخاری ج۱ ص۴۱۲)۔ لدھیانوی صاحب ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ: ’’توسیع مجال کی خاطر اہل بدعت فقہ حنفی چھوڑ کر قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور اپناعنان کے لئے ہم بھی یہ طرز قبول کر لیتے ہیں ورنہ مقلد کے