کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 95
ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ} ’’مومن لوگ اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کافروں (یا غیر مسلم افراد) کو اپنا رفیق اور یار و مددگار ہرگز نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا (یعنی مسلمانوں کو چھوڑ کر کفّار سے دِلی محبت رکھے گا) اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلّق نہیں۔ ہاں! یہ معاف ہے کہ ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِ عمل اختیار کر جاؤ، مگر اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمھیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔‘‘ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں چار اقوال نقل کیے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ آیت حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی، جو کفّارِ مکہ کے ساتھ اپنی محبت ظاہر کرتے تھے اور اہلِ مکہ کے نام ان کا ایک خط بھی پکڑا گیا تھا۔ [1] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دونوں قِسم کے معاشرے میں مسلم و غیر مسلم کے تعلّقات کی وضاحت کر دی ہے کہ اگر مسلم معاشرہ ہو اور کفّار بھی ساتھ رہتے ہوں اور مسلم حکُومت کے تابع ہوں تو اس شکل میں مسلمانوں کو کفّار کے ساتھ موالات اور دوستی و محبت نہیں رکھنی چاہیے، اگر معاملہ اس کے برعکس ہو کہ حکومت غیر اسلامی ہو اور اسی کے زیرِ تسلّط مسلمان بھی رہتے ہوں اورمسلمانوں کو کفّار کے ظلم وستم کا اندیشہ ہو تو انھیں دِلی موالات و محبت تو نہیں، البتہ ظاہری دوستانہ رسم وراہ رکھنے کی اجازت ہے، مگر اسلام کے مشن، مسلمانوں کے مفادات اور جان ومال کو کسی قِسم کا نقصان پہنچانے کی نوبت نہ آئے اور کفّار وکفر کی کوئی ایسی خدمت بھی نہ کی جائے، جس سے اسلام کے مقابلے میں کفر کو فروغ حاصل ہونے اور مسلمانوں پر کفّار کے غالب آجانے کا امکان ہو۔ [2] یہ بھی یاد رہے کہ اہلِ علم نے کفّار و مشرکین، یہود و نصاریٰ اور ملحدین سے دوستی گانٹھنے اور انبیا و صالحین کی پرستش جیسے ’’شرک‘‘ کا ارتکاب کرنے والے کی ہم نوائی کرنے کو ’’کبیرہ گناہ‘‘ شمار کیا ہے۔ [3]
[1] زاد المسیر (۱/ ۳۷۱) تفہیم القرآن (۵/ ۴۲۲) [2] ترجمہ وحاشیہ مولانا مودُودی، آیتِ مذکورہ۔ [3] تطہیر المجتمعات علامہ أحمد بن حجر آف قطر (مترجم اردو)، (ص: ۵۵) ملاحظہ فرمائیں۔