کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 93
میری طبیعت اسے کھانے پر تیار نہیں ہوتی۔‘‘ حضرت خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں کھانے لگا اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مجھے کھاتے) دیکھ رہے تھے۔‘‘ یزید بن اصم کی روایت صحیح مسلم میں ہے، جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( کُلُوْا وَأَطْعِمُوْا فَإِنَّہٗ حَلاَلٌ أَوْ قَالَ: لاَ بَاْسَ بِہٖ، وَلٰکِنَّہٗ لَیْسَ طَعَامِيْ )) [1] ’’کھاؤ اور کھلاؤ، یہ حلال ہے یا پھر فرمایا کہ (اس کے کھانے میں) کوئی حرج نہیں، لیکن یہ میرا کھانا نہیں ہے۔‘‘ بعض روایات کی بنا پر احناف کے نزدیک یہ مکروہ ہے، جب کہ معروف حنفی محدث امام طحاوی رحمہ اللہ نے صحاح وسنن کی مذکورہ عدمِ کراہت بلکہ صریح جواز کے مفہوم والی احادیث و آثار نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: (( فَثَبَتَ بِہٰذِہٖ الآْثَارِ أَنَّہٗ لاَ بَأْسَ بِأَکْلِ الضَّبِّ، وَبِہٖ أَقُوْلُ )) [2] ’’ان احادیث سے ثابت ہوا کہ گوہ کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں اور میں اسے ہی اختیار کرتا (اور فتویٰ دیتا) ہوں۔‘‘ بہر حال یہ ایک ضمنی بات تھی، غرض صرف یہ ہے کہ کفّار کا جھوٹا کھانے یا پینے کو جی نہ چاہے تو مجبوری بھی نہیں، مگر دلائل کی رُو سے وہ ممنوع و مکروہ اور حرام بھی ثابت نہیں ہوتا۔ موجودہ حالات میں زیادہ سے زیادہ مکروہِ تنزیہی کہا جاسکتا ہے کہ اس سے بچا جا سکے تو بہتر ہے، کیونکہ وہ ظاہری و حسّی نہ سہی، اعتقادی ومعنوی طور پر تو نجس ہوتے ہی ہیں اور ان میں سے کتنے ہی لوگ خنزیر بھی کھاتے اور اکثر شراب پیتے ہیں تو ان لوگوں کے جھوٹے سے پرہیز ہی اَولیٰ ہے۔ [3]
[1] صحیح مسلم مع شرح النووي (۱۳/ ۹۸) [2] فتح الباري (۹/ ۶۶۶) للتفصیل صحیح البخاري و فتح الباري (۹/ ۶۶۲۔ ۶۶۷) [3] دیکھیں: جدید فقہی مسائل از مولانا خالد سیف اللہ (ص: ۳۶۔ ۳۷) طبع حیدرآباد۔ انڈیا۔ اس بارے میں مولانا عبدالسلام کیلانی کا مضمون اور مولانا غازی عزیر کا تعاقب بھی بہت مفید ہے۔ جسے ماہنامہ محدّث لاہورمیں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔