کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 92
نتیجہ: اس طرح اب تک تینوں اقوال اور ان کے دلائل آپ کے سامنے آگئے ہیں اور دلائل کی رُو سے تو جمہور کا قولِ اوّل ہی اَولیٰ ہے۔ البتہ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ کسی چیز کو حلال اور پاک قرار دینے کا یہ معنیٰ بھی نہیں ہوتا کہ کسی کو اس کے کھانے پر مجبور کیا جائے، بلکہ کئی چیزیں ایسی ہیں کہ بالاتفاق پاکیزہ اور حلال ہیں، مگر جب کِسی کی طبیعت اسے کھانے پر تیار نہ ہو تو وہ اسے کھانے پر مجبور نہیں ہے اور نہ اسے کھانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ گوہ کا گوشت: اس بات کو اس مثال سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب یا گوہ کو حرام قرار نہیں دیا، مگر اسے کھایا بھی نہیں اور صاف فرما دیا کہ اسے کھانے پر میری طبیعت تیار نہیں ہوتی، چنانچہ صحیح بخاری و مسلم، سنن اور دیگر کتبِ حدیث میں اس بات کی تفصیل موجود ہے، مثلاً صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گوہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لاَ آکُلُہٗ وَلاَ أُحَرِّمُہٗ )) [1] ’’میں اسے نہیں کھاتا اور نہ ہی میں اسے حرام قرار دیتا ہوں۔‘‘ ایسے ہی صحیح بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت خالد بن ولید سیف اللہ رضی اللہ عنہ ، امّ المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے جو ان کی خالہ تھیں، نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اور ان دونوں) کے سامنے گوہ کا بھُونا ہوا گوشت رکھا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجۂ محترمہ نے بتایا کہ یہ گوہ کا گوشت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک کھینچ لیا، جو کھانے کے لیے آگے بڑھایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پُوچھا گیا کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ حرام ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لاَ، وَلٰکِنْ لَمْ یَکُنْ بِأَرْضِ قَوْمِيْ فَأَجِدُنِيْ أُعَافُہٗ )) [2] ’’نہیں (حرام تو نہیں) لیکن یہ میری قوم کے علاقے (مکے) میں نہیں پائی جاتی، لہٰذا
[1] صحیح البخاري مترجم اردو (۳/ ۲۵۹) صحیح مسلم (۱۳/ ۹۷) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۴۶۲) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۰۲۴) [2] صحیح البخاري مترجم اردُو (۳/ ۲۵۹) صحیح مسلم مع شرح النووي (۱۳/ ۹۹۔ ۱۰۰) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۲۲۲) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۲۶۴۰) سنن ابن ماجـہ (۳۲۴۱)