کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 88
’’الفقہ علی المذاہب الأربعہ‘‘ میں علامہ جزیری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس ارشادِ الٰہی: {اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ} سے مراد ان کی معنوی نجاست ہے، جس کا حکم شارح نے بیان فرما دیا ہے۔ اس سے یہ مُراد ہرگز نہیں کہ ان کی ذات و بدن (خنزیر کی طرح) نجسِ عین ہیں۔ [1] اسی طرح ’’المنار‘‘ میں علامہ مقبلی نے مذکورہ آیت سے کافر کی نجاست پر استدلال کرنے کو وہم قرار دیا ہے۔ [2] اہلِ علم کی ان تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ظاہریہ کی پہلی دلیل ہی کمزور ہے اور سورۃ التوبہ کی آیت (۲۴) میں مشرکین کی جو نجاست بیان ہوئی ہے، وہ اعتقادی و حکمی نجاست ہے، ظاہری و حسّی یا جسمانی و بدنی نہیں۔ 2۔دوسری دلیل: ان کی دوسری دلیل صحاح و سنن میں مذکور اس ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مفہومِ مخالف سے ہے، جس میں مذکور ہے: (( إِنَّ الْمُؤْمِنَ لاَ یَنْجُسُ )) [3] ’’یقینا مومن نجس نہیں ہوتا۔‘‘ ایک روایت میں ہے: (( إِنَّ الْمُسْلِمَ لاَ یَنْجُسُ )) [4]’’یقینا مسلمان نجس نہیں ہوتا۔‘‘ ان کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مومن نجس نہیں ہوتا، اس بات کا متقاضی ہے کہ غیر مومن اور غیر مسلم نجس ہوتا ہے۔
[1] الفقہ علی المذاہب الأربعۃ للجزیري (۱/ ۶) طبع بیروت۔ [2] نیل الأوطار (۱/ ۲۱) طبع بیروت [3] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۱۱۔ ۲۱۲) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۰۵) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۲۵۸، ۲۵۹، ۲۶۰) سنن ابن ماجـہ، رقم الحدیث (۵۳۴، ۵۳۵) مسند أحمد (۱/ ۲۳۵، ۳۸۴) [4] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۱۱۔ ۲۱۲) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۰۵) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۲۵۸، ۲۵۹، ۲۶۰) سنن ابن ماجـہ، رقم الحدیث (۵۳۴، ۵۳۵) مسند أحمد (۱/ ۲۳۵، ۳۸۴)