کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 86
شائع کی، جس میں غیر مسلموں کے جُھوٹے کے سلسلے میں اسی ظاہری نقطۂ نظر (کہ غیر مسلموں کا جھوٹا ناپاک اور نجس ہے، اس لیے کہ وہ خود بھی ناپاک و نجس ہوتے ہیں) کو ہی اختیار کیا گیا تھا، جس پر ہمارے ایک فاضل دوست جناب غازی عزیر (مقیم الجبیل، حال جدہ، سعودی عرب) نے تعاقب کیا تو ڈاکٹر صاحب نے اس تنقیدی مضمون کو ’’میثاق‘‘ ماہِ ستمبر ۱۹۸۶؁ء کے شمارے میں شائع کر دیا، جو اُن کی وسعتِ ظرفی اور جذبۂ قبولِ حق کی دلیل ہے اور موصوف کا اپنی سابقہ رائے سے رجوع کا ثبوت بھی۔ جَزَاہُمَا اللّٰہُ خَیْراً وَالْحَقُّ أَحَقُّ أَنْ یُّتَّبَعَ۔ ان دلائل کا جائزہ 1۔پہلی دلیل: اب آیئے ان چاروں دلائل کا جائزہ لیں، جو بعض اہلِ ظاہر کے ہیں۔ ان کی پہلی دلیل وہ ہے، جو سورۃ التوبہ (آیت: ۲۸) سے لی گئی ہے کہ مشرکین نجس ہیں۔ جائزہ: اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ یہ بات متفق علیہ نہیں کہ وہ ذات اور جسم و بدن کے لحاظ سے ناپاک اور نجسِ عین ہیں، بلکہ اس آیت میں ان کے عقیدے کی نجاست مُراد لی گئی ہے، جسے اعتقادی و معنوی نجاست کہا جائے گا، ظاہری و حسّی نہیں، جیسا کہ تفسیر ابنِ کثیر میں ہے: ’’أَمَّا نَجَاسَۃُ بَدَنِہٖ فَالْجَمْہُوْرُ عَلَیٰ أَنَّہٗ لَیْسَ بِنَجَسِ الْبَدَنِ وَالذَّاتِ، لِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالَیٰ أَحَلَّ طَعَامَ أَہْلِ الْکِتَابِ‘‘ [1] ’’مشرک کے بدن کی نجاست کے بارے میں جمہور اہلِ علم کا قول یہ ہے کہ ان کا بدن اور ذات نجس نہیں، کیوں کہ خود اللہ تعالیٰ نے اُن کے کھانے کو حلال قرار دیا ہے۔‘‘ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ’’زاد المسیر في علم التفسیر‘‘ میں اس سلسلے میں تین اقوال نقل کیے ہیں اور ظاہریہ کے ساتھ ساتھ عمر بن عبدالعزیز اور حسن بصری رحمہ اللہ کے قول کو چھوڑ کر
[1] تفسیر ابنِ کثیر (۲/ ۳۴۶)