کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 60
جامد نہیں، بلکہ سیال مائع ہو اور اس میں کوئی چوہا وغیرہ گر کر مرجائے تو اس گھی کا حکم بھی اس پانی ہی کا ہے، جس میں کوئی نجاست واقع ہو جائے۔ اس کی تفصیل فتاویٰ ابن تیمیہ (۲۱/ ۴۸۸ تا ۴۹۸) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر وہ گھی سیال نہیں بلکہ جامد ہے اور اس جمے ہوئے گھی والے برتن میں چوہا گر جائے تو اس کے بارے میں تو حکم واضح ترہے۔ خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ’’صحیح البخاري، کتاب الوضوء، باب ما یقع من النجاسات في السمن و الماء‘‘ اسی طرح ’’کتاب الذبائح والصید، باب إذا وقعت الفأرۃ في السّمن الجامد أو الذائب‘‘ نیز بخاری شریف کے علاوہ سنن ابی داود، ترمذی، نسائی، سنن دارمی، دار قطنی اور مسند احمد میں مذکور ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے گھی کا حکم دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَلْقُوْھَا وَمَا حَوْلَہَا فَاطْرَحُوْہُ وَکُلُوْا سَمَنَکُمْ )) [1] ’’اسے نکال کر پھینک دو اور جس جگہ گر کر اس کی موت واقع ہوئی ہے، اس کے آس پاس والا گھی بھی نکال کر پھینک دو اور اپنا باقی گھی کھالو۔‘‘ یعنی وہ پاک ہے، ناپاک نہیں ہوا۔ امام بخاری کی تبویب سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جمے ہو ئے اور سیال گھی میں کوئی فرق نہیں، کیوں کہ انھوں نے ’’السمن الجامد أو الذائب‘‘ کے تحت بھی یہی حدیث ذکر کی ہے۔ [2] جب کہ جامد جمے ہوئے اور ذائب سیال کو کہا جاتا ہے۔ البتہ اس مسئلے میں اختلاف کے قوی ہونے کی وجہ سے انھوں نے پختہ حکم نہیں لگا یا ہے۔ اب رہی وہ حدیث جس میں جمے ہوئے اور سائل گھی میں فرق کیا گیا ہے، وہ سنن ابی داود اور مسند احمد میں مروی ہے، اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خطا قرار دیا ہے اور ابو حاتم نے اسے وہم شمار کیا ہے، جبکہ امام ترمذی نے سیال و جامد کے ذکر والی اس روایت کو غیر محفوظ اور شاذ کہا ہے۔ [3] جامد اور سیال میں فرق کرنے والی روایت صرف ایک راوی معمر نے بیان کی ہے اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قولِ معمر کو متروک قرار دیا ہے۔ البتہ بعض ائمہ و فقہا نے جامد اور سیال میں فرق بھی
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۲۴۳) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۲۵۴) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۴۶۹) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۹۷۱) المغني (۱؍ ۵۳) [2] صحیح البخاري مع الفتح (۹؍ ۶۶۷) [3] فتح الباري (۱؍ ۳۴۴) سنن الترمذي مع تحفۃ الأحوذي (۵؍ ۵۱۷) طبع مدني۔