کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 56
نجس نہیں کر سکتی۔‘‘ لیکن پہلے مسلک والے ائمہ و فقہا اور محققین علما، نیز امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے نزدیک اس حدیث کے متن اور سند دونوں میں اضطراب یعنی جھول پایا جاتا ہے، لہٰذا یہ قابلِ استدلال نہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں ان دونوں قسم کے جھول یا اضطراب کو بڑی حد تک زائل کر دیا ہے، نیز محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور اس اضطراب والی علت کو رد کیا ہے۔ [1] امام طحاوی، ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم، ذہبی، نووی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے قلتین والی حدیث سے دلیل لینے پر پندرہ اشکالات وارد کیے ہیں اور ان کی تفصیل بھی ذکر کی ہے، جو ان کی کتاب ’’تہذیب معالم السنن‘‘ (۱/ ۱۰۶ تا ۱۲۵) یا ’’مختصر السنن مع المعالم و التہذیب‘‘ ( ۱/ ۵۹۔ ۷۴) میں دیکھی جاسکتی ہے، جہاں انھوں نے اس حدیث کی سند و متن کے اضطراب اور قلیتن یا دو مٹکوں کے پانی کی تحدید پر کھل کر بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ دو مٹکوں سے مراد کتنا پانی ہے؟ اس میں آج تک علما کا کسی خاص مقدار پر اتفاق نہیں ہوسکا، مذکورہ مسئلے کی حدیث کے بارے میں موصوف کی یہ طویل بحث اہلِ علم کے لیے قابل مطالعہ ہے، جس کی تفصیلات یہاں ذکر کرنا باعثِ طوالت ہے۔ مذکورہ حدیث پر بہت کچھ کلام کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام غزالی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: (( وَدِدْتُّ أَنَّ مَذْھَبَ الشَّافِعِیِّ فِيْ الْمِیَاہِ کَانَ کَمَذْھَبِ مَالِکٍ )) [2] ’’مجھے یہ بات پسند ہے کہ کاش امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک بھی پانی کے سلسلے میں امام مالک رحمہ اللہ والا ہوتا۔‘‘ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: (( اَمَّا مَا ذَھَبَ اِلَیْہِ الشَّافِعِیُّ مِنْ حَدِیْثِ قُلَّتَیْنِ، فَمَذْھَبٌ ضَعِیْفٌ مِنْ جِہَۃِ النَّظْرِ، غَیْرُ ثَابِتٍ فِيْ الْأَثَرِ )) ’’کہ دو مٹکوں والی حدیث کی بنا پر امام شافعی رحمہ اللہ نے جو مسلک اختیار کیا ہے، وہ فکر و نظر
[1] دیکھیں: النیل (۱؍ ۳۰۔ ۳۱) الإرواء (۱؍ ۶۰) تمام المنۃ (ص: ۴۹) [2] بحوالہ فتاویٰ ابن تیمیۃ (۲۱؍ ۵۰۱)