کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 54
’’التنکیل‘‘ (۷۵۴) میں اور شیخ ناصر الدین البانی نے ’’التنکیل‘‘ (۷۶۲) کی تحقیق میں اسی مسلک کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ کا رجحان بھی اپنی تفسیر میں اسی طرف ہے، بلکہ وہ لکھتے ہیں: (( وَہُوَ الصَّحِیْحُ فِيْ النَّظَرِ، وَجَیِّدُ الْأَثَرِ )) [1] ’’یہی مسلک زیادہ قرینِ قیاس ہے اور اسی کے دلائل بھی اچھے ہیں۔‘‘ پھر انھوں نے آگے چل کر طوسی اکبر کے حوالے سے لکھا ہے: اس مسئلے میں سب سے عمدہ و اچھا مسلک امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک ہے اور ان سب کا استدلال سنن ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد، سنن دارقطنی و بیہقی، مستدرک حاکم اور مصنف ابن ابی شیبہ میں مذکور ’’بئر بضاعۃ‘‘ والی معروف حدیث سے ہے، جس میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم ’’بضاعۃ‘‘ نامی کنویں سے وضو کر سکتے ہیں، جب کہ یہ ایسا کنواں ہے، جس میں حیض کے چیتھٹرے، کتوں کا گو شت اور دوسری بدبودار اشیا ڈالی جاتی ہیں؟ تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( الْمَآئُ طَھُوْرٌٌ، لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْیٌٔ )) [2] ’’پانی پاک ہے (طاہر و مطہّر ہے ) اسے کوئی چیز نجس اور ناپاک نہیں کر سکتی۔‘‘ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ ’’معالم السنن‘‘ (۱/ ۳۷) میں امام خطابی رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ اہلِ مدینہ جان بوجھ کر گندی اشیا ’’بئر بضاعۃ‘‘ میں ہرگز نہیں ڈالاکرتے تھے، بلکہ دراصل وہ کنواں ایک نشیبی اور ڈھلوان جگہ پر تھا اور بارش وغیرہ کا پانی مذکورہ بالا گندی اشیا کو اپنے ساتھ بہا کر اس کنویں میں لے جایا کرتا تھا، نیز قرآنِ کریم کے ان الفاظ: {وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً طَھُوْرًا} [الفرقان: ۴۸] ’’اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا۔‘‘ کا ظاہر بھی یہی بتاتا ہے کہ جب تک پانی کے اوصاف میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہو تو وہ
[1] تفسیر القرطبي (۷؍ ۱۳؍ ۴۲۔ ۴۳) [2] صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۵۶) صحیح سنن أبي داود(۵۹) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۱۵) المنتقی مع النیل (۱؍ ۲۸) المجموع للنووي (۱؍ ۱۲۷) التلخیص الحبیر (۱؍ ۱۳)