کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 52
پہلی شکل: نجاست کے اثر سے جس پانی کے رنگ، بو یا ذائقے میں فرق آجائے، اگر ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی تبدیل ہو جائے تو وہ پانی ناپاک ہوجاتا ہے، جیسا کہ سنن ابن ماجہ، دار قطنی اور بیہقی میں ایک حدیث ہے: (( اِنَّ الْمَآئَ طَہُورٌ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْیٌٔ اِلاَّ مَا غَلَبَ عَلٰی رِیْحِہٖ وَطَعْمِہٖ وَلَوْنِہٖ )) [1] ’’پانی پاک ہے اور اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی، سوائے اس کے کہ اس کی بو یا ذائقہ یا رنگ بدل جائے۔‘‘ محدّثین کرام رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ شارح بخاری نے اپنی دوسری کتاب ’’بلوغ المرام‘‘ میں ابو حاتم سے اس کے ضعیف ہونے کا قول نقل کیا ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے تو اس کے ضعیف ہونے پر تمام محدّثین کا اتفاق نقل کیا ہے۔ [2] لہٰذا محض یہ حدیث ہی ہوتی تو استدلال درست نہ ہوتا، لیکن امام ابن المنذر اور دیگر علما و محدّثین نے اس بات پر تمام علماے اُمت کا اجماع نقل کیا ہے کہ ان اوصاف میں سے کسی ایک کے بھی بدل جانے سے وہ پانی ناپاک ہو جاتا ہے اور یہ اجماعِ اُمت ہی دراصل یہاں دلیل و حجت ہے۔ [3] ان اوصاف میں سے کسی بھی ایک کے بدل جانے پر اس کے ناپاک ہو جانے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کم ہو، بلکہ کم ہو یا زیادہ، ہر حالت میں ناپاک ہو جاتا ہے۔ دوسری شکل: جس پانی میں نجاست گِرجائے، اس کی دوسری شکل یہ ہے کہ نجاست گرنے سے اس کا رنگ یا بو یا ذائقہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا، اب اس پانی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں اہلِ علم کے تین اقوال ہیں اور یہ پانی کے قلیل یا کثیر ہونے میں اختلاف کی
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۵۲۱) [2] تفصیل کے لیے دیکھیں: نصب الرایۃ للزیلعي (۱؍ ۹۴) التلخیص الحبیر للحافظ ابن حجر (۱؍ ۹۴) و بلوغ المرام مع السبل (۱؍ ۱۸) المغني (۱؍ ۳۹) المجموع للنووي (۱؍ ۱۶۰۔ ۱۶۱) [3] کتاب الإجماع (ص: ۳۳) الأوسط (۱؍ ۲۶۰) و المغني (۱؍ ۳۸) نیل الأوطار (۲۹)