کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 51
موجود ہیں، ان دونوں طرح کی احادیث میں اہلِ علم نے مطابقت یوں پیداکی ہے کہ نعت والی احادیث سے نہی تنزیہی مراد ہے، تحریمی نہیں، یعنی اگر ایسے پانی سے غسل و وضو کر لے تو جائز ہے اور اگر نہ کرے تو یہ زیادہ بہترہے، یہ بھی تب ہے کہ جب عورت پہلے غسل کرلے اور پانی بچ جائے، لیکن اگر اکٹھے ہی غسل کریں تو بلا اختلاف جائزہے۔ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا ہے۔‘‘ [1] المختصر مرد و زن کے اکٹھے غسل ووضو کر نے یا ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل و وضو کرنے کے جواز کی تفصیل پر غور کیا جائے تو تھوڑی مقدار کے مستعمل پانی کے بارے میں بھی فیصلہ ہو جاتا ہے کہ اگرچہ نفاست پسند طبائع ایسے پانی سے غسل و وضو میں تاَمّل کریں، جیسا کہ فریقِ ثانی کا مسلک بھی ہے، لیکن بعض مذکورہ دلائل کی رو سے وہ پانی طاہر و مطہر ثابت کیا گیا ہے اور پہلے فریق کے اس مسلک والے ائمہ و فقہا کے علاوہ امام شوکانی رحمہ اللہ جیسے مجتہدین و شارحینِ حدیث اور امام قرطبی و علامہ ابن عبدالبر جیسے علما سے بھی اس پانی کے طاہر و مطہر ہونے کی طرف میلان ہی کا پتا چلتا ہے۔ [2] تیسری قسم: اسی سلسلے کی تیسری قسم وہ پانی ہے، جس میں کوئی نجاست گر گئی ہو، مثلاً جھیل کا پانی ہے یا وہ تالاب جو شہروں اور دیہات سے دور جنگلات اور صحراؤں وغیرہ میں بارش وغیرہ کے پانی سے بنے ہوں یا پانی کا حوض ہے، چاہے وہ کہاں بھی ہو، ان میں سے کسی میں کوئی نجس اور ناپاک چیز گرجائے تو اس پانی کا کیا حکم ہے؟ اس کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ بات واضح کر دیں کہ شہروں اور دیہات سے دورپانی جانے والی جھیلوں اور تالابوں یا حوضوں کے ساتھ ’’دور‘‘ کی قید ہم نے اس لیے ذکر کی ہے کہ آس پاس میں پائے جانے والے تالاب وغیرہ عموماً ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں نالیوں کا گندہ پانی جمع ہوتا ہے اور اس پانی کے نجس و ناپاک ہونے میں تو اختلاف کی کوئی گنجایش ہی نہیں۔ دیگر مذکورہ شکلوں میں پائے جانے والے پانی کی بھی دو شکلیں ہیں۔
[1] تفصیل کے لیے دیکھیں: نیل الأوطار (۱؍ ۲۶۔ ۲۷) [2] نیل الأوطار (۱؍ ۱۸۔ ۲۷) تفسیر القرطبي (۷؍ ۱۳؍ ۴۸۔ ۵۱)