کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 461
(( الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ )) [1] ’’مسلمان وہ ہے، جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ صحیح بخاری و مسلم ہی کی ایک دوسری حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: (( سِبَابُ الْمُسْلِمِ فَسُوْقٌ وَقِتَالُہٗ کُفْرٌ )) [2] ’’کسی مسلمان کو گالیاں دینا فسق اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘ یہ سب اپنی جگہ بجا لیکن اس سے وضو پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں؟ کسی صحیح حدیث سے اس کا ناقض ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ بعض صحابہ و تابعین کے آثار سے پتا چلتا ہے کہ اگر کسی سے ایذا رسانی سرزد ہو جائے تو وہ شخص وضو کرلے۔ مثلاً حضرت عائشہ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابن عباس] ، اسی طرح حضرت ابراہیم نخعی اور عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ سے ایذا رسانی پر وضو کرنا منقول ہے، لیکن نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ملتی، اس بات کا انسانی معاشرے میں بہت عام ہونا اور اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے ناقضِ وضو یا غیر ناقض قرار نہ دینا، اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کاحکم براء تِ اصلیہ ہی پر قائم رہے گا، لہٰذا ایذاے مسلم کے سخت گناہ اور ناجائز ہونے کے باوجود اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اس موضوع کی ایک مرفوع حدیث امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’المحلیٰ‘‘ میں ذکر کی ہے، جس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (( إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَتَوَضَّأُ مِنَ الْحَدَثِ وَأَذَی الْمُسْلِمِ )) [3] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدث اور ایذاے مسلم سے وضو کیا کرتے تھے۔‘‘ لیکن اس کی سند کے ایک راوی داود بن محبر کو کذاب، دروغ گو اور احادیث گھڑنے میں شہرت یافتہ قرار دیا گیا ہے، لہٰذا یہ روایت من گھڑت ہے۔ شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے ’’المحلّیٰ‘‘ کے
[1] صحیح البخاري مع الفتح، رقم الحدیث (۱۰) صحیح مسلم مع شرح النووي (۱؍ ۲؍ ۱۰، ۱۲) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۱۶۸) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۱۸، ۲۱۱۹) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۶۲۳) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۸) صحیح مسلم مع شرح النووي (۱؍ ۳؍ ۵۴) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۶۱۰، ۲۱۲۳) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۳۸۳۱) سنن ابن ماجہ (۶۹) [3] المحلی (۱؍ ۱؍ ۲۶۱)