کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 459
صاف کر دے، اسے دھونے کی ضرورت نہیں۔ امام شافعی نے امام لیث اور طاؤس رحمہم اللہ کے طریق ہی سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ایک اثر بیان کیا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں: ’’اِغْسِلْ أَثَرَ الْمَحَاجِمِ عَنْکَ، وَحَسْبُکَ‘‘[1] ’’سینگی کے آثار (خون وغیرہ) دھو لو اور بس۔‘‘ جیسا کہ امام طاؤس رحمہ اللہ کا قول بھی گزرا ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ انھوں نے ناک میں انگلی ڈالی تو اس پر خون لگا ہوا نکلا، اسے انھوں نے انگلی سے مل دیا، نماز پڑھی اور از سرِ نو وضو نہیں کیا۔ اسی موضوع کی ایک موقوف روایت ’’معرفۃ السنن والآثار للبیہقي‘‘ میں بھی ہے۔ یاد رہے کہ سینگی لگوانے کے بعد محض اس مقام کو دھو دینے اور وضو نہ کرنے کا مفہوم رکھنے والی تو ایک مرفوع روایت بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جو سنن دارقطنی اور بیہقی میں ہے، لیکن وہ ضعیف السند ہے، لہٰذا وہ محلِ استدلال تو نہیں ہوسکتی، لیکن اسے بطورِ شاہد لیا جاسکتا ہے، جب کہ ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ میں المجد ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی مرفوع مگر ضعیف حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ اس کو تھوڑے خون پر محمول کیا جائے۔ یہی طریقہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ان کے دوسرے موافقین نے بھی اختیار کیا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ کی شرح ’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس جمع و تطبیق کی تائید سنن دارقطنی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی اس روایت سے بھی ہوتی ہے، جس میں مروی ہے کہ ایک دو قطروں سے وضو نہیں الاّ یہ کہ خون بہنے والا ہو۔ لیکن اس کی سند میں ایک راوی محمد بن فضل بن عطیہ ہیں، جو متروک ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں اس روایت کی سند کو سخت ضعیف کہا ہے۔‘‘[2] اس ساری تفصیل سے خون کے بارے میں تین مسلک معلوم ہوئے: 1۔خون کا مطلقاً ناقضِ وضو نہ ہونا، جو امام مالک، امام شافعی، ظاہریہ اور جمہور محدّثین کا مسلک ہے۔ 2۔خون کا مطلقاً ناقضِ وضو ہونا، جو احناف کا مسلک ہے۔
[1] التلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۱۴) [2] نیل الأوطار مع منتقی الأخبار (۱؍ ۱؍ ۱۸۹) تلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۱۳)