کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 457
بیہقی و مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح سند کے ساتھ موصولاً مروی ہے، جس کا تذکرہ علا مہ ابن حزم نے بھی ’’المحلّٰی‘‘ میں کیا ہے، اس اثر میں ہے: ’’عَصَرَ ابْنُ عُمَرَ بَثْرَۃً فَخَرَجَ مِنْہَا الدَّمُ وَلَمْ یَتَوَضَّأْ‘‘[1] ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پھنسی پھوڑی تو اس میں سے خون نکلا، مگر انھوں نے وضو نہیں کیا۔‘‘ یہ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں، جب کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: ’’ثُمَّ صَلَّی وَلَمْ یَتَوَضَّأْ‘‘ ’’(پھنسی پھوڑنے کے بعد) انھوں نے نماز ادا کی، مگر از سرِ نو وضو نہیں کیا۔‘‘ ’’المحلّٰی‘‘ ابن حزم وغیرہ میں ہے کہ اس خون کو انھوں نے دوانگلیوں کے ما بین مل دیا، پھر اٹھے اور نماز پڑھی۔ اس طرح امام طاؤس کا اثر صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح سند سے موصولاً مروی ہے: ’’إِنَّہٗ کَانَ لَا یَرَیٰ فِي الدَّمِ وُضُوْئً ا یَغْسِلُ عَنْہُ الدَّمَ ثُمَّ حَسْبُہٗ‘‘[2] ’’وہ خون سے وضو کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے، خود سے خون دھو دیں، بس یہی کافی ہے۔‘‘ حضرت ابو جعفر باقر رحمہ اللہ کے والد محمد بن حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا اثر صحیح بخاری میں تعلیقاً اور فوائدِ حافظ ابو بشر میں موصولاً مروی ہے، جس میں اعمش بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر باقر رحمہ اللہ سے پوچھا کہ نکسیر بہنے والے خون کا کیا حکم ہے؟تو انھوں نے فرمایا: ’’لَوْ سَالَ نَہْرٌ مِّنْ دمٍ ، مَا أَعَدْتُّ مِنْہُ الْوُضُوْئَ‘‘[3] ’’اگر خون کی نہر بھی جاری ہو جائے تو میں اس سے وضو نہیں دہراؤں گا۔‘‘ مشہور تابعی و فقیہ امام عطا بن ابی رباح کا اثر صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف عبد الرزاق میں موصولاً مروی ہے، حضرت ابن جریج ان سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک خون نکلنے سے وضو نہیں
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۱/ ۲۸۱) المحلی (۱؍ ۱؍ ۲۶۰) التلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۱۴) [2] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۲۸۰، ۲۸۱، ۲۸۲) [3] نفس المرجع۔