کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 455
مستدرک حاکم میں بھی موصولاً مروی ہے، جس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور لشکرِ اسلا می نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ یَّحْرُسُنَا اللَّیْلَۃَ؟ )) [1]’’آج رات (جاگ کر) کون ہماری چوکیداری کرے گا؟‘‘ انصار اور مہاجرین میں سے ایک ایک صحابی اٹھا اور عرض کی کہ ہم چوکیداری کریں گے۔ پڑاؤ کی جگہ ایک پہاڑی گھاٹی تھی، لہٰذا ان دونوں صحابیوں نے رات کو آدھا آدھا وقت بانٹ لیا کہ آدھی رات ایک جاگے گا اور گھاٹی کے منہ پر پہرہ دے گا اور آدھی رات دوسرا۔ چنانچہ پہلے مہاجر صحابی سوگیا اور انصاری صحابی نماز پڑھنے لگے۔ اتنے میں دشمن کے کسی فوجی نے انصاری صحابی کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ اس نے تیر پھینکا، جو اس انصاری صحابی کو آکر لگا۔ اس نے وہ تیر نکالا اور نماز کو جاری رکھا۔ پھر اس دشمن نے دوسرا تیر مارا۔ صحابی نے وہ بھی نکالا اور نماز میں مشغول رہے، پھر اس ظالم نے تیسرا تیر مارا۔ اس صحابی نے وہ بھی نکالا، رکوع کیا، سجدہ کیا اور اپنی نماز مکمل کی، پھر اس صحابی نے اپنے دوسرے ساتھی کو جگایا۔ اس ساتھی نے جب اسے خون میں غلطاں و پیچاں دیکھا تو کہا: (( لِمَ لَا اَنْبَھْتَنِيْ أَوَّلَ مَا رَمٰی؟ )) ’’تم نے مجھے اس وقت کیوں نہ جگایا، جب اس نے پہلا ہی تیر ماراتھا؟‘‘ اس صحابی نے جواب دیا: (( کُنْتُ فِیْ سُوْرۃٍ فَأَحْبَبْتُ أَن لَّا أَقْطَعَہَا )) [2] ’’میں ایک سورت کی تلاوت کر رہا تھا، جسے میں منقطع نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘‘ ’’دلائل النبوۃ‘‘ امام بیہقی میں ایک دوسرے طریق سے یہی واقعہ مروی ہے، جس میں یہ تفصیل بھی مذکور ہے کہ ان دونوں صحابیوں میں سے انصاری صحابی کا نام حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ اور مہاجر صحابی کا نام حضرت عمار بن یا سر رضی اللہ عنہ تھا اور جس سورت کی وہ دورانِ نماز تلاوت کر رہے تھے، وہ سورۃ الکہف تھی۔[3]
[1] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۱۸۳) عن سہل بن الحنظلیۃ۔ [2] صحیح البخاري مع الفتح (۱؍ ۲۸۰، ۲۸۱) التلخیص الحبیر (۱؍ ۱؍ ۱۱۵) [3] فتح الباري (۱؍ ۲۸۱)